براڈشیٹ کے مالک کے شریف خاندان پر الزامات کے بعد نیا تنازع کھڑا ہو گیا
لندن: براڈ شیٹ ایل ایل سی کے مالک کاوے موسوی کے شریف فیملی کی جانب سے رشوت کے لیے رابطہ کیے جانے کے الزامات نے میڈیا میں دھوم مچا دی ہے کیونکہ سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹ پریس آف پاکستان نے اس ہفتے ایک ویڈیو انٹرویو میں وکیل کے دعوے کی بنیاد پر ایک ہیڈ لائن چلائی تھی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متعدد اخبارات نے اس کہانی کو اٹھایا اور یہ سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ ٹاک شوز پر بھی مباحثوں کا محور بنی رہی۔
مزید پڑھیں: سیاسی الزام تراشیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، سربراہ براڈ شیٹ
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف لگائے گئے دیگر الزامات میں اثاثے بازیافت کرانے کی فرم کے مالک کاوے موسوی نے دعویٰ کیا ہے کہ نواز شریف سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص نے ان سے 2012 میں رابطہ کیا اور ان کے خلاف تحقیقات کو روکنے کے لیے رقم کی پیش کش کی۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے کاوے موسوی نے ان الزامات کو دہرایا، ان کا کہنا تھا کہ انجم ڈار نامی ایک شریف آدمی نے خود کو نواز شریف کا بھانجا/بھتیجا بتاتے ہوئے 2012 میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، میں ان سے دو بار ملا، ایک بار کینٹربری اور پھر لندن میں، انہوں نے کہا کہ مذکورہ فرد نے انہیں ڈھائی کروڑ ڈالر کی پیش کش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے مجھے ایک تصویر دکھائی جس میں گھر میں نواز شریف نے انہیں گلے لگایا ہوا ہے اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے ایک ٹیپ ریکارڈنگ بھی تیار کی، یہ اردو میں تھی لہٰذا مجھے نہیں معلوم کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا انہوں نے اس پیش کش پر غور کیا تو کاوے موسوی نے کہا کہ جب ہمیں یہ احساس ہوا کہ وہ بنیادی طور پر ہمیں پیچھے ہٹنے کے لیے رقم کی پیش کش کررہا ہے تو میرا جواب تھا کہ جو بھی رقم پیش کی جارہی ہے وہ ثالثی میں وکیلوں کے ذریعے آنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: 'اثاثہ برآمدگی کمپنی' کا شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دعویٰ
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے برطانیہ کے حکام یا عدالت کے ذریعے مقرر کردہ ثالث کو پیشرفت کی اطلاع کیوں نہیں دی تو انہوں نے کہا کہ میں نے یقینی طور پر اس کے بارے میں وکلا سے تبادلہ خیال کیا لیکن ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معاملے کو حکام کے سامنے نہ اٹھائیں، انہوں نے اس کی تفصیل نہیں بتائی کہ کیوں ایسا کیا گیا لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ شریف خاندان کا فرد کون ہے تو انہوں نے کہا کہ اس بارے میں شریف فیملی سے پوچھ لیں۔
اس سوال پر کہ 2003 میں حکومت سے اثاثے کی وصولی کا معاہدہ ختم ہونے کے کئی سال بعد شریف خاندان یا ان کے نمائندے انہیں 2012 میں رشوت کی پیش کش کیوں کریں گے، تو کاوے موسوی نے کہا کہ ہم ثالثی میں تھے اور ثالث کو اس کی تحقیقات کرنی پڑتیں، وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ سارا معاملہ سامنے آئے۔
اس پیشرفت پر تبصرہ کرتے ہوئے نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے ڈان کو بتایا کہ یہ قطعی سچ نہیں ہے، انجم ڈار نامی ہمارا کوئی رشتے دار نہیں ہے، اگر کوئی فرد اس طرح کا دعویٰ کرنے والا ان (موسوی) کے پاس آیا تھا تو کیا یہ ان کی تفتیشی کمپنی کے لیے یہ مشکل کام تھا کہ وہ اس طرح کا الزام لگانے سے پہلے جان لیں کہ وہ کون ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف کے دو بھائی اور ایک بہن ہیں اور ان کے تمام بچوں کے نام عوامی ڈومین میں ہیں، کیا کاوے موسوی اتنے برے تفتیش کار ہیں کہ وہ نو سال بعد بھی اس آسان حقیقت کا تعین نہیں کرسکے؟
مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟
رواں ہفتے نشر کیے گئے ایک انٹرویو میں براڈشیٹ کے مالک نے شریف خاندان پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے اور ایون فیلڈ ہاؤس میں کنبے کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے اپنی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اپنی خدمات کی پیش کش کیں، حکومت ان کی پیش کشوں میں دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتی اور عدالتی حکم کے بعد براڈشیٹ ایل ایل سی کو حال ہی میں 2 کروڑ 90 لاکھ روپے ادا کرنے پر مجبور ہوئی۔
ویڈیو انٹرویو کے دوران ایک اور چونکا دینے والے دعوے میں کاوے موسوی نے یہ بھی الزام لگایا کہ وہ مشیر احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ جس شخص سے ملے تھے، وہ مشتبہ افراد سے تفتیش کرنے کے بجائے اپنے حصے (رقم) میں زیادہ دلچسپی رکھتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ “ایک وفد تھا جو لندن میں [2018 میں] نیشنل کرائم ایجنسی کی رقم کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے آیا تھا جہاں مذکورہ رقم نامعلوم حکم کے تحت منجمد ہوئی تھی، اس وقت مجھے شمالی لندن کے کیفے روج میں ملنے کے لیے کہا گیا اور میں نے ایک شریف آدمی سے ملاقات کی جس کے پاس تمام دستاویزات تھیں، ہم نے کہا ٹھیک ہے ہم فیصلے پر جو رقم آپ پر واجب الادا ہیں اس کے بارے میں بھول جائیں گے، آئیں مل کر کام کریں، انہوں نے شکوک کا اظہار کیا، میں نے پھر کہا کہ مجھے ایسے اکاؤنٹ کے بارے میں پتا ہے جس میں ایک ارب ڈالر ہیں، وہ جاننا چاہتے تھے کہ 'ہماری کٹ کیا ہے؟'
براڈشیٹ کے مالک نے کہا کہ شہزاد اکبر کو شاید کمیشن کے بارے میں اس فرد کے سوال کے بارے میں علم نہیں تھا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک شخص جس نے کہا تھا کہ وہ ایک جنرل ہے، اس وقت ان سے ملا لیکن اس نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت امریکی کمپنی کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامند
ایک روز قبل شہزاد اکبر نے اس نمائندے کو بتایا کہ حکومت کو براڈشیٹ ایل ایل سی کی خدمات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے کیونکہ اس نے کچھ دیے بغیر پاکستان کا نام اچھالا ہے۔
براڈشیٹ ایل ایل سی جو 2000 میں آئل آف مین میں شامل کمپنی تھی، کی خدمات اسی سال مشرف حکومت میں شامل عناصر نے پاکستان میں سیاستدانوں اور تاجروں کے مبینہ غیر ملکی اثاثوں کی تحقیقات اور بازیافت کے لیے حاصل کی تھیں، اس کے مالک کے مطابق شریف خاندان حکومت کا ایک بہت بڑا ہدف تھا اور اس کے بعد انہوں نے 200 ’اہداف‘ اور ان کی مشتبہ بیرون ملک جائیدادوں کو شامل کرنے کے لیے اپنی تلاش کو بڑھایا۔
موسوی نے شیرپاؤ کا نام لیا
اپنے پہلے انٹرویو میں کاوے موسوی نے الزام لگایا کہ اگرچہ مشرف حکومت نے کچھ افراد کی تحقیقات کے لیے ان کی فرم کی خدمات حاصل کیں لیکن بعد میں ان سے درخواست کی کہ براڈشیٹ ایل ایل سی تفتیشی عمل سے کچھ نام نکال دے، انہوں نے عندیہ دیا کہ ایسی ہی ایک درخواست ایک ایسے شخص کے بارے میں کی گئی تھی جسے بعد میں مشرف نے وزیر داخلہ مقرر کیا تھا۔
انہوں نے 2004 میں وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے آفتاب احمد شیرپاؤ کا ذکر کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ یہ شیر پاؤ ہی تھے۔