اسامہ ستی قتل: متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کے خلاف کارروائی کی سفارش
اسلام آباد میں 21 سالہ اسامہ ستی قتل کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ مکمل کرلی گئی جس میں متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی گئی ہے۔
جوڈیشل انکوائری ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رانا محمد وقاص نے کی۔
چیف کمشنر اسلام آباد نے جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ وزارت داخلہ میں جمع کرا دی، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) کمانڈوز کی تعیناتی ماہر نفسیات کی رائے اور کارکردگی کی بنیاد ہونی چاہیے۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اے ٹی ایس اہلکاروں کو باقاعدہ فورسز کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، ان کی خدمات سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) کی منظوری کے بغیر نہیں لی جانی چاہیئیں۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کہا کہ وائرلیس ریکارڈ اہم شواہد سمجھا جاتا ہے لہٰذا انسپکٹر جنرل (آئی جی) نظام کی بہتری کے لیے اقدامات کریں اور اہلکاروں کو ہدایت دیں کہ سنسنی خیزی کے بجائے واقعے کی حقیقی تفصیلات دیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسامہ ستی کا قتل: واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے پانچوں اہلکار برطرف
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس مانیٹرنگ کا نظام کمزور ہے، موقع پر موجود سینیئر پولیس افسر کو صورتحال کا کنٹرول لینا چاہیے تھا۔
جوڈیشل انکوائری رپورٹ میں متعلقہ ایس پی اور ڈی ایس پی کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے دونوں افسران نے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔
رپورٹ میں مزید سفارش کی گئی ہے کہ ملوث ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔
اسامہ ستّی قتل کیس کی ہائی کورٹ کے جج سے جوڈیشل انکوائری کرانے کی سمری بھی وزارت داخلہ کو ارسال کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں نوجوان کا قتل: پولیس ریکارڈ تضاد کے سامنے آنے پر سیل
نوجوان اسامہ ستی کا قتل
واضح رہے کہ 3 جنوری کو اسلام آباد پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 5 اہلکاروں نے فائرنگ کرکے ایک نوجوان اسامہ ستی کو جاں بحق کردیا تھا۔
بعدازاں وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں نوجوان اسامہ ستی کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ شیخ رشید احمد کو ہدایت کی تھی کہ وہ 24 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کریں۔
علاوہ ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ نے قتل میں ملوث 5 اہلکاروں کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
ایف آئی آر میں والد ندیم ستی نے مؤقف اپنایا تھا کہ قتل سے ایک دن قبل ان کے بیٹے کا سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا اور پولیس اہلکاروں نے اسے مزہ چکھانے کی دھمکی دی تھی۔
مذکورہ ایف آئی آر کے مطابق 2 جنوری کی رات 2 بجے جب اسامہ سیکٹر ایچ-11 میں ایک دوست کو چھوڑ کر واپس آرہا تھا تو پولیس حکام نے اس کی گاڑی کو روکا اور چاروں طرف سے فائر کیے جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔
تاہم پولیس کے ترجمان کے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً ڈیڑھ بجے کال موصول ہوئی کہ سفید گاڑی میں موجود کچھ ڈکیت سیکٹر ایچ-13 تھانہ شمس کالونی کی حدود میں ڈکیتی کرکے آرہے ہیں، اطلاع موصول ہونے پر پیٹرول ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکاروں نے ردعمل دیا اور سیاہ شیشوں والی سوزوکی کار کو روکنے کی کوشش کی۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ تاہم پولیس حکام کی جانب سے متعدد مرتبہ کہنے کے باوجود ڈرائیور نے گاڑی نہیں روکی، جس پر پولیس اہلکاروں نے 5 کلومیٹر تک اس کا پیچھا گیا لیکن ڈرائیور نے گاڑی ہلکی نہیں کی، بالآخر پولیس نے گاڑی پر فائر کیے لیکن بدقسمتی سے وہ ڈرائیور کو لگے اور وہ زخمی ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے نوجوان کے قتل کا نوٹس لے لیا، 24 گھنٹوں میں رپورٹ طلب
اس بیان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد عامر ذوالفقار خان نے فوری طور پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی آئی جی وقار الدین سید کو سونپی گئی اور سب انسپکٹر افتخار احمد اور کانسٹیبلز مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد اور محمد مصطفیٰ کی گرفتاری کا حکم دیا۔
بعدازاں اسامہ ستی کے قتل سے متعلق تمام ریکارڈ سینئر افسران کی ہدایت کے تحت اسلام آباد پولیس نے سیل کردیا گیا تھا۔
پولیس افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا تھا کہ ریکارڈ سیل کردیے گئے ہیں کیونکہ اس میں تضاد ہے۔
دو ریکارڈ میں دیکھا گیا تھا کہ پولیس نوجوان کی گاڑی روکنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
علاوہ ازیں کمشنر کی ہدایت پر واقعے کی عدالتی انکوائری بھی شروع کردی گئی ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رانا محمد وقاص نے پولیس عہدیداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے اور جائے وقوع کا معائنہ کیا تھا۔
بعد ازاں 8 جنوری 2021 کو سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد نے قتل کیس میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی کے پانچوں اہلکاروں کو برطرف کردیا تھا۔