• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

براڈ شیٹ کے مالک نے مسلم لیگ (ن) کا جھوٹ بے نقاب کردیا، شہزاد اکبر

شائع January 11, 2021
مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ کے مالک کاوے موسوی نے مسلم لیگ (ن) کے بیانیے کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حقائق کے حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے بیانیہ گھڑا کہ ہمیں کرپشن پر نہیں بلکہ ایک اقامے پر نکال دیا گیا لیکن انہیں کرپشن اور منی لانڈرنگ پر ہی نکالا گیا، آپ کو احتساب عدالت سے سزا کرپشن پر ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: سیاسی الزام تراشیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، سربراہ براڈ شیٹ

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ براڈشیٹ کے مقدمے میں ان کی بریت ہو گئی اور ثابت ہو گیا کہ لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ ٹھیک تھے لیکن کل کے انٹرویو میں براڈ شیٹ کے مالک کاوے موسوی نے کہا کہ یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، یہ حقائق کے حوالے سے جھوٹا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ کاوے موسوی نے کہا کہ 2012 میں نواز شریف کے کسی بھانجے یا بھتیجے نے انہیں رشوت دینے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے دعوے سے دستبردار ہو جائیں، اب یہ لندن میں موجود رپورٹرز کا حق بنتا ہے کہ وہ نواز شریف سے پوچھیں کہ کیا یہ موسوی کا بیان درست ہے کہ آپ نے اس کو رشوت دینے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ بیان درست ہیں تو نواز شریف کے لیے بہترین موقع ہے کہ وہ اس پر ہتک عزت کا دعویٰ دائر کر کے ہرجانہ وصول کر لیں۔

انہوں نے براڈ شیٹ کا تعارف بتاتے ہوئے کہا کہ براڈ شیٹ اثاثوں کی کھوج لگانے والی کمپنی تھی جس کی خدمات 2000 میں اس وقت کے نیب نے ایک معاہدے کے تحت حاصل کی تھیں کہ یہ 200 لوگوں کی فہرست ہے، ان کے اثاثوں کی کھوج اور شواہد اکٹھے کرنے میں یہ ادارہ ہماری معاونت کرے گا اور جو بھی رقم برآمد ہو گی تو اس میں سے انہیں 20 فیصد ملے گا۔

مشیر احتساب نے کہا کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد حکومت پاکستان نے یہ معاہدہ ختم کردیا کیونکہ حکومت اور نیب کا ماننا تھا کہ وہ انہیں کوئی خاطر خواہ معاونت فراہم نہیں کررہے ہیں اور وہ خود سے ہی ثبوت ڈھونڈ لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ معاملہ وہاں ختم نہیں ہوا بلکہ براڈ شیٹ ثالثی عدالت میں اس معاملے کو لے گئی اور معاہدے کے تحت یہ مطالبہ کیا کہ کیونکہ آپ نے اربوں روپے کی یہ ریکوریز کی ہیں لہٰذا اس میں سے ہمیں 20 فیصد رقم ادا کی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: 'اثاثہ برآمدگی کمپنی' کا شریف خاندان کی ایون فیلڈ جائیداد سے متعلق دعویٰ

ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ مصالحتی عدالت کے سامنے اکتوبر 2009 سے چلنا شروع ہوا، اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، ان کی ان معاملات میں کتنی دلچسپی ہے، یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ 2009 سے 2016 تک مصالحتی عدالت میں مقدمہ چلتا رہا، پہلے این آر او کی ایک حکومت تھی، پھر این آر او کی دوسری حکومت تھی، دونوں نے جس طرح اس مقدمے کی پیروی کی وہ ایک الگ بحث ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور نیب کا یہ دعویٰ تھا کہ انہوں نے ہمیں معاونت فراہم نہیں کی، براڈشیٹ کا کہنا تھا کہ معاونت فراہم کریں یا نہ کریں، معاہدے کے تحت آپ ہمیں 20 فیصد معاوضہ دینے کے پابند ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مصالحتی عدالت نے 2016 میں معاہدے کی شقوں کے مطابق یہ قرار دیا کہ آپ ان کو پیسے دینے کے پابند ہیں، 2016 کے بعد اس بات کی سماعت ہوئی کہ پیسے دینے چاہئیں یا نہیں اور اگر دینے ہیں تو کتنے دینے ہیں، جب ہم حکومت میں آئے تو یہ فیصلہ ہو چکا تھا۔

وزیر اعظم کے مشیر نے کہا کہ ہم نے اپیل فائل کردی اور دو سال اپیل کا سلسلہ 2020 تک چلا اور جب فیصلہ اپنے حق میں آنے کے بعد براڈشیٹ نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹ پر لندن کی ہائی کورٹ کا چارجنگ آرڈر لے لیا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟

انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ چارجنگ آرڈر سے دستبردار ہو گئی کیونکہ ان کا واجب الادا رقم کی ادائیگی کردی گئی اور ان کا کوئی دعویٰ نہیں بنا، لیکن اس چیز کو مریم نے اس طرح پیش کیا کہ جیسے وہ ایون فیلڈ کیس میں بے گناہ قرار پائے البتہ ان کا جھوٹ پکڑا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کاوے موسوی نے اپنے انٹرویو میں بتا دیا ہے کہ یہ تو ہیں ہی چور اور انہوں نے ہمیں بھی رشوت دینے کی کوشش کی جبکہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر پیش کیے گئے بیانیے کو بھی کھول کر رکھ دیا۔

مشیر احتساب نے کہا کہ یہ چیز اقامے کی بار بار دہرائی جاتی ہے تو یہ بات ذہن میں رکھیے کہ یہ صرف اقامے کی بات نہیں ہے، آپ کے سامنے ایک حالیہ مثال خواجہ آصف کی موجود ہے، اقامے کی آڑ میں سرکاری ملازم منی لانڈرنگ آرام سے کر پاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف کے کیس میں مختلف چیزیں ہیں، تمام اثاثوں کی کوئی منی ٹریل نہیں ہے، کوئی آمدن کے ذرائع یا خرید و فروخت نہیں ہے لیکن ان میں سے ایک اثاثہ عام آدمی کے سمجھنے کے لیے بہت آسان ہے اور وہ ہے دبئی سے ان کی 14 کروڑ کی تنخواہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت امریکی کمپنی کو 2کروڑ 87لاکھ ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر رضامند

ان کا کہنا تھا کہ ایک شخص پاکستان میں وزیر دفاع ہے، اس کے بعد وہ پانی اور بجلی کا وزیر بنتا ہے، پھر اس کے بعد وہ وزیر خارجہ بنتا ہے لیکن اس تمام عرصے وہ دبئی کی الیکٹریکل یا مکینیکل کمپنی کے اندر تنخواہ دار ملازم بھی ہے جس نے اپنے معاہدے کے مطابق 8 گھنٹے کی شفٹ بھی لگانی ہے، ہفتے میں صرف دو چھٹیاں ہیں، سال میں صرف 20 چھٹیاں ہیں اور وہ وہاں 50 ہزار درہم پر ملازم ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے یہ جو دعویٰ کیا کہ 14کروڑ روپے مجھے تنخواہ ملی، اس کا وہ دو سال گزرنے کے باوجود ایک بھی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کر سکے، یہ ایک ایسی واحد نوکری تھی جس نے ان کے اکاؤنٹ میں پیسے ہی ٹرانسفر نہیں کیے اور بینکنگ کا نظام بھی اس لیے سوال نہیں اٹھاتا تھا کیونکہ ان کے پاس اقامہ تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024