• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سپریم کورٹ: میشا شفیع کیس، 'جنسی ہراسانی' ازخود نوٹس کیس میں ضم

دونوں کے کیسز گزشتہ ڈھائی سال سے زیر سماعت ہیں—فائل فوٹو: فیس بک/ انسٹاگرام
دونوں کے کیسز گزشتہ ڈھائی سال سے زیر سماعت ہیں—فائل فوٹو: فیس بک/ انسٹاگرام

سپریم کورٹ نے گلوکارہ میشا شفیع کے کیس کو پہلے سے اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت جنسی ہراسانی کے از خود نوٹس کیس میں ضم کردیا۔

میشا شفیع نے دسمبر 2019 میں جنسی ہراسانی کی شکایت گورنر پنجاب اور محتسب اعلیٰ پنجاب کی جانب سے مسترد کیے جانے اور بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھی اپنی درخواست مسترد کیے جانے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ابتدائی طور پر گورنر پنجاب اور بعد ازاں محتسب اعلیٰ پنجاب نے اگست 2018 میں میشا شفیع کی گلوکار علی ظفر کے خلاف دائر کی گئی جنسی ہراسانی کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔

گورنر پنجاب اور محتسب اعلیٰ پنجاب نے میشا شفیع کی جنسی ہراسانی کی درخواست تکنیکی بنیادوں پر مسترد کی تھی اور واضح کیا تھا کہ گلوکارہ کی درخواست ورک پلیس ایکٹ 2010 کے زمرے میں نہیں آتی۔

گلوکارہ نے علی ظفر کے خلاف ورک پلیس ایکٹ 2010 کے تحت گورنر پنجاب اور محتسب اعلیٰ کو درخواست دی تھی۔

گورنر پنجاب اور محتسب اعلیٰ پنجاب کی جانب سے درخواست مسترد کیے جانے کے بعد میشا شفیع نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور عدالت نے بھی ان کی درخواستوں کو تکنیکی بنیادوں پر ناقابل سماعت قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: میشا شفیع نے ’جنسی ہراساں‘ کیس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ میشا شفیع کی درخواست ورک پلیس ایکٹ 2010 کے تحت نہیں آتی، کیوں کہ علی ظفر نے انہیں ملازمت نہیں دے رکھی تھی۔

تینوں مقامات سے درخواست مسترد ہوجانے کے بعد میشا شفیع نے دسمبر 2019 میں سپریم کورٹ میں مذکورہ معاملے پر درخواست دی تھی، جس پر پہلی سماعت ایک سال بعد 11 جنوری 2021 کو ہوئی۔

میشا شفیع نے جولائی 2018 میں علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا—فائل فوٹو: انسٹاگرام
میشا شفیع نے جولائی 2018 میں علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا—فائل فوٹو: انسٹاگرام

میشا شفیع کی درخوست پر جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مختصر سماعت کرتے ہوئے میشا شفیع اور علی ظفر کے وکلا کو اپنے اعتراضات جلد جمع کروانے کی ہدایت کی۔

دوران سماعت میشا شفیع کے وکلا نے عدالت کو آگاہی دی کہ لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ جنسی ہراسانی کی شکایت صرف متعلقہ ادارے کے ملازمین کر سکتے ہیں جب کہ ہراسانی قانون کے تحت کسی کے خلاف شکایت کے لیے شکایت کنندہ کا ملازم ہونا لازمی نہیں۔

میشا شفیع کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ تعلیمی اداروں میں بھی یہی جنسی ہراسانی قانون نافذ ہے، جس پر عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ میشا شفیع کے وکلا کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات غور طلب ہیں۔

دوران سماعت علی ظفر کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی محتسب اور لاہور ہائی کورٹ میشا شفیع کی درخواست کو مسترد کر چکے ہیں اور عدالت مذکورہ کیس کو میرٹ کی بنیاد پر دیکھے۔

علی ظفر کے وکلا کے دلائل پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ وہ کیس کا فیصلہ نہیں کریں گے بلکہ قانونی نکات کی وضاحت کے لیے نوٹس جاری کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ میں میشا شفیع ہراسانی کیس سماعت کے لیے مقرر

بعد ازاں عدالت نے علی ظفر کے وکلا کو تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے میشا شفیع کے کیس کو سپریم کورٹ میں پہلے سے زیر سماعت جنسی ہراسانی کے ایک از خود نوٹس کیس میں ضم کردیا۔

عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ میشا شفیع نے جولائی 2018 میں علی ظفر پر اپنی ٹوئٹ کے ذریعے جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا، جسے علی ظفر نے مسترد کردیا تھا۔

مذکورہ معاملے پر دونوں نے ایک دوسرے پر ہرجانے کے دعوے بھی دائر کر رکھے ہیں اور علی ظفر کے ہتک عزت کیس کی گزشتہ 2 سال سے سماعتیں جاری ہیں۔

علاوہ ازیں علی ظفر نے میشا شفیع سمیت دیگر خواتین کے خلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں جھوٹی مہم چلانے کی درخواست بھی دائر کی تھی، جس پر حال ہی میں ایف آئی اے نے قرار دیا کہ ان کی تحقیقات کے مطابق علی ظفر کے خلاف جھوٹی مہم چلائی گئی اور ایف آئی اے نے ٹرائل کورٹ سے میشا شفیع سمیت دیگر افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی درخواست بھی کی تھی۔

میشا شفیع اور علی ظفر کے جنسی ہراسانی کے کیس کو ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا اور ان کے معاملے پر شوبز شخصیات سمیت دیگر اہم سیاسی و سماجی شخصیات بھی منقسم دکھائی دیتی ہیں۔

ماضی میں دونوں انتہائی قریب بھی رہ چکے ہیں—فائل فوٹو: فیس بک
ماضی میں دونوں انتہائی قریب بھی رہ چکے ہیں—فائل فوٹو: فیس بک

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024