نذیرعباسی اور کمیونسٹ تحریک
آج یہ بات بحث طلب سمجھی جاتی ہے کہ کمیونزم قابل عمل نظریہ ہے بھی یا نہیں، لیکن کل تک اس نظریہ پر دنیا بھر میں لوگ کبھی جیولس فیوچک کی طرح تو کبھی چے گویرا کی طرح جان کا نذرانہ دینے سے گریز نہیں کرتے تھے ۔پاکستان کی دھرتی بھی بانجھ نہیں یہاں حسن ناصر اور نذیر عباسی دو ایسے کردار پیدا ہوئے جن کو کمیونسٹ قرار دے کرخفیہ اداروں کی اذیت گاہوں میں قتل کردیا گیا۔
نذیر عباسی سندھ سے تعلق رکھنے والے صف اول کے کمیونسٹ تھے۔ وہ 10 اگست 1953 کو ٹنڈوالہ یار کے لوئر مڈل کلاس گھر میں پیدا ہوئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف اسٹوڈنٹس کے وائس چیئرمین رہے۔ یہ وفاقی تنظیم چاروں صوبوں کی ترقی پسنداور مقبول طلبا تنظیموں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور پنجاب اسٹوڈنٹس یونین پر مشتمل تھی۔
اب تو بہت کچھ بدل چکا ہے۔ حکومت خواہ امریکہ دونوں کو نہ کسی کے کمیونسٹ ہونے پر اورنہ کمیونسٹ پارٹی پر اعتراض ہے۔ پچاس کی دہائی سے لے کرسوویت یونین کے ٹوٹنے تک کمیونسٹ ہونا پاکستان حکومت کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی کمیونسٹ مقبول لیڈر کے طور پر ابھرا، حکومت نے اسے حسن ناصر اور نذیر عباسی کی طرح زندہ نہیں چھوڑا، یا پھر جام ساقی کی طرح تب تک قید رکھا کہ وہ ذہنی یا جسمانی طور پر اپاہج ہوگیا۔
اس لیے پارٹی کے لیڈر اور کارکن زیرِ زمین یعنی روپوش ہو کر کام کرتے تھے۔
انقلاب ایران اور پھر افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد حکمرانوں کو لگا کہ انقلاب پاکستان کے دروازے پر بھی دستک دے رہا تھا۔ حکمران ڈرے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں پارٹی نے ’’چھینو چھینو پاکستان، جیسے چھینا افغانستان‘ ‘کے موضوع سے ایک ہینڈ بل شائع کیا ۔یہ ہینڈ بل خاصا متنازع رہا کہ واقعی پاکستان کے کمیونسٹ اس پوزیشن میں تھے کہ وہ افغانستان کی طرح یہاں انقلاب لے آتے؟
بہر حال افغان انقلاب کے بعد کمیونسٹوں کی مقبولیت بڑھ رہی تھی اور پاکستان حکومت کی نظر میں وہ اور زیادہ خطرناک ہوگئے تھے۔
روپوش رہ کر شہرشہر جا کر کام کرنے والے کامریڈ جام ساقی کوگرفتار کر لیا۔ جام ساقی کو ملک کے سیاسی اور اہل فکرو دانش حلقوں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ان کی گرفتاری پاکستان کے کمیونسٹوں کے لیے بڑا دھچکا تھا۔
دوسرا دھچکا کمیونسٹ پارٹی کے مزدور فرنٹ پر کام کرنے والے اور مقبول مزدور رہنما شمیم واسطی کی گرفتاری تھی۔
حکومت نے تیسرا وار1980میں کیا۔خفیہ اداروں نے حیدرآباد اور کراچی میں پارٹی کے تین خفیہ مقامات کا سراغ لگا لیا جو پارٹی کے دفاتر کے طور پر کام کرتے تھے۔ یوں ضیاء حکومت پارٹی کے سرکردہ رہنما گرفتار کرنے اور اس کا نیٹ ورک پر ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئی۔ فوج کے خفیہ اداروں نے کراچی کی ایک کچی آبادی میں چھاپا مار کر وہاں سے نذیر عباسی، پروفیسر جمال نقوی، کمال وارثی اور شبیر شر کو گرفتار کر لیا۔بعد میں اسی مقدمے میں میری اور بدر ابڑو کی بھی گرفتاری عمل میں آئی۔
1953 کے بعد پارٹی پر یہ بڑا حملہ تھا ۔ یہ محض حسن اتفاق بھی نہیں تھا کہ کمیونسٹوں کے خلاف یہ دونوں کریک ڈاؤن تب ہوئے جب پاکستان امریکہ سے نئے رشتے میں جڑ رہا تھا۔
کمیونسٹ پارٹی کے ان دفاترسے خفیہ والوں نے کیا برآمد کیا؟ دو سائکلو اسٹائل اور ایک فوٹو اسٹیٹ مشین، چند کاغذ کے ریم اور چھپائی کی سیاہی جس کے ذریعے پارٹی کا پرچہ ’’سرخ پرچم‘‘، ’’ہلچل ‘‘ یا بعض اوقات ہینڈبل چھاپتے تھے۔
پارٹی کے پاس واقعی حکومت پر قبضے کا کوئی پلان تھا؟ دوران تفتیش گرفتار شدگان کو ان سوالات کا سامناکرنا پڑا۔ بعد میں خصوصی فوجی عدالت میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ الزامات یہ تھے کہ یہ لوگ پاکستان میں فوجی حکومت کا تختہ الٹ کر یہاں سوویت یونین جیسا سوشلسٹ نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔یہ مقدمہ بعد میں جام ساقی کیس کے طور پر مشہور ہوا۔ ملک کے نامور سیاستدان بینظیر بھٹو، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، بیگم طاہرہ مظہرعلی خان، شیخ رفیق احمد، مولانا شاہ محمد امروٹی اور دیگر رہنما کمیونسٹوں کے دفاع کے لیے گواہوں کے طور پر فوجی عدالت میں آئے۔پنڈی سازش کیس کے بعد یہ پہلا مقدمہ تھا جو کمیونسٹوں پر بطور کمیونسٹ چلایا گیا۔
جام ساقی کی گرفتاری کے بعد نذیر عباسی ان کی کمی کو پورا کر رہے تھے۔ وہ نوجوان، باصلاحیت، نڈر اور سیاسی حلقوں میں جانے پہچانے تھے۔وہ سیاسی کام کرنے کے حوالے سے نت نئے طریقے ایجاد کر لیتے تھے۔
نذیر سے میری پہلی ملاقات ستّر کی دہائی کے شروع میں ہوئی جب بنگال میں فوجی آپریشن چل رہا تھا۔ اس کے بعد ہم نے ایک ساتھ پارٹی کی طلبا تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں کام کیا۔ طلبہ تنظیم اور پارٹی کے حوالے سے مختلف شہروں کے دورے کیے۔ مختلف مسائل پر احتجاجوں میں ساتھ ساتھ رہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے بعد پارٹی میں شامل ہونے والا یہ شخص ایک دن اتنا بڑا لیڈر ہو جائے گا۔ بہرحال اس کی صلاحیتوں، لگن اور کام کرنے کی قوت کے ہم سب معترف تھے۔
نذیر کہا کرتے تھے کہ کمیونسٹ کاکام ہمہ جہتی ہوتا ہے۔ ہم اگر طلباء محاذ پر کام کر رہے ہیں تو اپنے آپ کو طلبہ تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہم لوگ یونیورسٹی سے سیدھے حیدرآباد میں واقع ٹریڈ یونین آفس آتے تھے اور وہاں پرمختلف کارخانوں میں مزدوروں کے مسائل پر چلنے والی جدوجہد میں ان کی مدد کرتے تھے۔کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے کئی کئی راتیں حیدرآباد کے صنعتی علاقے کالی روڈ ایریا میں مزدوروں کے ڈیرے پر گزاریں۔وہاں ان سے مزدور تحریک اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کرتے تھے اور اسٹڈی سرکل چلاتے تھے۔
کہیں ہاریوں کی جدو جہد چل رہی ہوتی تھی تو نذیر وہاں بھی جاتے تھے۔ جب یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا ہاریوں یا مزدوروں میں جاتے تھے تو ان کا حوصلہ بڑھتا تھا۔
نوابشاہ کے علاقے میں ہاریوں کامسئلہ چل رہا تھا۔ سندھ یونیورسٹی جام شورو سے واپسی پرنذیرنے مشورہ دیا کہ ہمیں وہاں چلنا چاہیے۔ میں نے بتایا کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن میری جیب میں چار پانچ روپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ فکر نہ کرو میرے پاس پیسے ہیں۔‘‘
جب ہم حیدرآباد پہنچ کر حیدر چوک پر اترے تو بھوک کے مارے برا حال تھا۔ سب سے پہلے پکوڑے اور ڈبل روٹی خریدی اور ہوٹل میں بیٹھ کر چائے پی۔ نذیر کے کہنے پر پکوڑوں چائے کے میں نے پیسے دیئے اور اسٹیشن کی طرف چل پڑے۔ راستے میں پراسرار انداز میں مسکراتے ہوئے بتایا کہ پیسے اس کے پاس بھی نہیں ہیں۔ میں نے کہا پھر کیسے چلیں گے نوابشاہ۔ ہم لوگ بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی میں بیٹھ گئے۔ پورا راستہ میں جھگڑتا رہا کہ یہ کیا بے وقوفی ہے، مفت میں پکڑے جائیں گے ۔ انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا کہ ٹکٹ چیکر کو بتائیں گے کہ ہم طالب علم ہیں اور ہاریوں کے لئے جا رہے ہیں۔‘‘ اس کو یقین تھا کہ چیکر اس کی اس سچائی کو سمجھ اور مان لے گا۔ انہوں ہدایت کے انداز میں کہا ’’ اگر کام کرنا ہی ہے تو سمجھو ہر صورت میں کرنا ہے۔‘‘
سندھ یونیورسٹی میں سیاسی کام کرنے کے لیے وہ روزانہ آبائی شہر ٹنڈوالٰہ یار سے آتے تھے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر دن بھر کے کام کا جائزہ لینے اور نوٹس کا تبادلہ کرنا ہوتا تھا لیکن وہ بس میں سوئے ہوئے ہی ملتے تھے۔میں نے ایک دن بس میں سونے کی وجہ پوچھی توبتایا کہ رات کو وہ میونسپل ناکے پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ڈیوٹی ختم ہونے پر سیدھے یونیورسٹی آ جاتے ہیں۔ وہ بلدیہ ٹنڈوالٰہ یار میں ناکہ منشی تھے اور اپنی ڈیوٹی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا سیاسی کام بھی مکمل طور پر کرتے تھے۔
نذیر کی شادی پر مقدمہ بھی دائر کیا گیا کہ انہوں نے شادی کے نام پر سیاسی جلسہ کیا ہے اور جلوس نکالا ہے۔ انہیں گرفتار کرکے کوئٹہ کے قلی کیمپ میں رکھا گیا۔ اسی عرصے میں ان کے والد کا انتقال ہوا لیکن انہیں آخری دیدار کے لیے بھی رہا نہیں کیا گیا۔ شادی کے بعد ان کی بیوی حمیدہ جو کہ پارٹی کی کارکن تھیں، کو ’’پٹ فیڈر ہاری تحریک‘‘ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔
وہ قلی کیمپ کوئٹہ سے رہائی پر انہوں نے بتایا کہ انہیں خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے دھمکی دی ہے کہ تم نے اگر اپنا سیاسی کام بند نہ کیا اور اب کے پکڑے گئے تو زندہ نہیں بچوگے۔ 1980 میں ان اہلکاروں نے یہ بات سچ ثابت کرکے دکھائی، نذیر عباسی کی دوران تفتیش پراسرار حالات میں موت واقع ہوگئی۔
پارٹی نے نذیر کو احتیاط برتنے کی ہدایت کی۔ اور وہ روپوش ہوگئے۔ روپوشی میں پارٹی کا کام پہلے سے بھی زیادہ لگن کے ساتھ جاری رکھا۔
30 جولائی 1980 نذیر عباسی دوبارہ گرفتار ہوگئے اور نو اگست کو انہیں اذیتیں دے کر قتل کر دیا گیا۔ انہیں ایدھی نے غسل اور کفن دیا اور سخی حسن قبرستان کراچی میں دفنایا گیا۔ ایک کمیونسٹ لیڈر کوایک لاوارث کی طرح دفن کردیا گیا۔
دوران تفتیش مجھے معلوم نہیں تھا کہ کون کون گرفتار ہوا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اگست کے شروع میں ایک دن کچھ فوجی افسران آئے اورانہوں نے میری طبیعت پوچھی اور کہا کہ ٹارچر تو نہیں ہوا ہے وغیرہ۔ مجھے بہت تعّب ہوا کہ آج اچانک ان کا لب ولہجہ اتنا نرم اور انسانیت والا کیوں ہے؟ میں اس رویے کو ڈرامہ سمجھتا رہا جو اکثر اوقات دوران تفتیش خفیہ ادارے اپناتے ہیں۔ لیکن دراصل یہ سب کچھ نذیر کی موت کے بعد ہوا تھا۔
تقریباً دو ماہ کی سخت تفتیش اور ٹارچر کے بعد جب مجھے جیل بھجوانے کے لیے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو اس وقت پروفیسرجمال نقوی کو بھی لایا گیا تھا۔ پولیس گاڑی میں جیل جاتے وقت میں نے پروفیسر کو بتایا کہ حالات خاصے خراب ہیں میں نے تفتیشی افسران کے آنکھوں میں وحشی پن دیکھا ہے۔ سخت سزائیں آئیں گی۔ یہ کسی کو لٹکانا چاہ رہے ہیں۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ نہیں، وہ ایسا نہیں کرسکتے۔ میرا یہ شبہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے عدالت کے ذریعے تو سخت سزا نہیں دی لیکن تشدد کے ذریعے ایک ساتھی کو مار دیا۔
نذیر نے جان کا نذرانہ دے کر بہت کچھ بچالیا تھا۔ اپنے نظریے اور پارٹی کی ساکھ کے ساتھ ساتھ ساتھیوں کو بھی، جو گرفتار تھے اور جو باہر تھے۔۔ ایک ایسی شخصیت جو اصولوں پر سودے بازی کے لیے سوچ بھی نہیں سکتی۔
وہ ایک خوش مزاج اور سریلی آواز والے نڈر انسان تھے۔ انقلابی نغموں کے علاوہ لوک گیت اور بعض فلمی گیت بھی بڑے شوق سے گاتے تھے۔’’پنجرے کے پنچھی رے تیرا درد نہ جانے کوئی‘‘ بہت اچھا گاتے تھے۔
جنرل ضیاء کی موت کے بعد بینطیر بھٹو حکومت نے ایک ادھوری کوشش کی کہ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ دوبارہ کھولا جائے لیکن تب تک دنیا ہی بدل چکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی تھی اور اس معاملے کی مطلوبہ پیروی نہ ہونے کی وجہ سے ایک کمیونسٹ کا قتل جس کی خاصی شہادتیں موجود تھیں، ملزمان کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکا۔
2008 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے آغاز میں بھی ایک تحریک چلی اور میڈیا میں بھی شور ہوا کہ نذیر عباسی کے قتل کا مقدمہ چلایا جائے۔مگر بات آگے نہیں بڑھ سکی۔تاہم زیر الزام سابق فوجی افسر امتیاز بلا نے میڈیا میں الٹی سیدھی وضاحتیں کیں۔
نذیر عباسی ایک دیومالائی کردار بن گیا ہے جو سیاسی کارکنوں کو متاثر کرتا رہے گا۔کیونکہ عباسی نے ایک آمر سے لڑتے ہوئے ٹارچر سیل میں مرنا پسند کیا مگر نظریاتی وفاداری پر آنچ نہ آنے دی۔
تبصرے (8) بند ہیں