سینیٹ اجلاس:حکومت، اپوزیشن کے درمیان سخت جملوں تبادلہ
اسلام آباد: پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کارکنوں کی گرفتاری پر حکومت اور اپوزیشن بینچز کے اراکین نے سخت جملوں کا تبادلہ کیا جہاں حکومت نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ وہ دشمن کے بیانیے کو مضبوط کر ر ہے ہیں اور اپوزیشن ننے دعویٰ کیا کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن پر ایوان بالا میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کوئٹہ کے جلسے کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کو فوج اور پی ڈی ایم کے خلاف 'آزاد بلوچستان' کے نعرے بلند کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ' اس وقت فوج پر تنقید غلط راہ پیدا کرتی ہے جب پاکستان کو ہائبرڈ وار کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے'۔
انہوں نے نوازشریف پر تنقید کی کہ اگر ان میں ہمت ہوتی تو ان کی پارٹی کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے قانون سازی کی حمایت نہیں کرنی چاہیے تھی۔
وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے صرفبدعنوانی کے کیسز کا سامنا کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس کیلئے اپوزیشن کی ریکوزیشن اعتراض لگا کر واپس
انہوں نے سیاسی ورکرز کی گرفتاری کا انکار کیا اور کہا کہ ان کے خلاف کریک ڈاؤن حکومت کی پالیسی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے یہ معاملہ کابینہ میں اٹھایا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ اپوزیشن کو سیاسی جلسے کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک کے ابتدائی مرحلے میں پنجاب میں مقامی سطح پر کسی نہ کسی طرح کی بدانتظامی ہوئی ہے تاہم بعد میں اسے آزادانہ اختیار دیا گیا۔
علی محمد خان نے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ماڈل ٹاؤن واقعے اور مسلم لیگ (ن) کے دور اقتدار میں سپریم کورٹ کی عمارت پر حملے کی یاد دلاتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ 'مخصوص امور نہ چنیں'۔
وزیر مملکت نے کہا کہ وزیر اعظم کوئٹہ کا ضرور دورہ کریں گے اور چند وجوہات کی وجہ سے وہ اس وقت وہاں نہیں جارہے ہیں۔
اپوزیشن بینچز نے دعوٰی کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ہدایت پر ملک بھر میں پی ڈی ایم کے شیڈول جلسوں سے قبل اس کے سیکڑوں سیاسی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
اس سے قبل بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سسی پلیجو نے کہا تھا کہ وقت ختم ہوچکا ہے اور اب حکومت سے مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے اپوزیشن کی تحریک کو ریاست مخالف کے طور پر دیکھا جارہا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ کسی بھی اپوزیشن جماعت نے پی ڈی ایم احتجاج کو آگے بڑھانے کے لیے کسی غیر قانونی سرگرمی کا سہارا نہیں لیا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم جاں بحق افراد کے اہل خانہ کا مطالبہ سننے کوئٹہ نہیں گئے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سینیٹ انتخابات فروری میں کروانے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کو وہاں جانا چاہیے تھا اور پھر مچھ میں ہونے والے المناک واقعے پر سینیٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، اس واقعے پر صوبوں میں مایوسی پائی جاتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم ترکی کے مشہور ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی کی ٹیم سے ملاقات کے لیے وقت نکال سکتے ہیں مگر کوئٹہ نہیں آسکتے'۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پی ڈی ایم کے مطالبات جمہوری ہیں تاہم حکومت نے ہر جلسے سے قبل اس کے کارکنوں پر سختی کی اور ان کے خلاف مقدمات درج کیے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک جمہوری پیرامیٹرز میں رہتے ہوئے اور عدم تشدد کے نظریہ پر عمل کرتے ہوئے جدوجہد کر رہی ہے مگر حکومت لوگوں کو بغاوت اور تشدد پر مجبور کررہی ہے۔
جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا عطا الرحمن نے اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ اپوزیشن کی قیادت کو را کے ایجنٹس کا لیبل لگایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف فوج اور سرحدوں پر فرائض سرانجام دینے والے فوجی جوانوں کے خلاف نہیں ہے۔
قائد ایوان ڈاکٹر شہزاد وسیم نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اپوزیشن حکومت میں رہتے ہوئے سیاسی کارکنوں پر کریک ڈاون کرنے میں ملوث تھی۔
انہوں نے کہا 'ہم کسی بھی جمہوری تحریک کو دبانا نہیں چاہتے ہیں'۔
ایوان میں قائد حزب اختلاف راجہ ظفرالحق نے سینیٹر شہزادوسیم کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ کسی بھی سیاسی کارکن کو گرفتار نہیں کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'یہ بیان حقائق کے منافی ہے'۔