ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کےخلاف پشاور ہائیکورٹ کافیصلہ کالعدم قرار
عدالت عظمیٰ نے خیبرپختونخوا کے ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
مزیدپڑھیں: پشاور ہائی کورٹ: ریٹائرمنٹ کی عمر 63 برس کرنے کا صوبائی حکومت کافیصلہ کالعدم
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چند سول سرونٹس کے تحفظات پر قانون کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ قانون بنانا حکومت کا کام ہے جبکہ عدالتیں قانون پر عملدرآمد کراتی ہیں۔
علاوہ ازیں بینچ میں شامل جسٹس منیب اختر نے ریماکس دیے کہ جب روٹی پک جاتی ہے تو یہ پوچھنا بیکار ہے کہ آٹا کہاں سے آیا۔
عدالت عظمیٰ نے خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے معاملہ دوبارہ پشاور ہائی کورٹ بھجوا دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ پشاور ہائیکورٹ قانون کے مطابق فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ صرف وضاحتوں سے قانون چیلنج نہیں ہوتے کیونکہ قانون آئین کے تحت بنتا ہے رولز آف بزنس سے نہیں۔
مزید پڑھیں:خیبرپختونخوا: سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں 3 سال کا اضافہ
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کو اسمبلی کی کارروائی پر اعتراض ہے تو اسمبلی میں جاکر شکایت کرے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب قانون پر گورنر کے دستخط ہوگئے تو معاملہ ختم ہوگیا جبکہ قانون سازی میں کسی کا مؤقف سننے کا تصور نہیں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے گزشتہ برس جون میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرکے اسے 63 سال کرنے فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد سالانہ بنیادوں پر اربوں روپے کی بچت کرنا بتایا گیا تھا۔
کے پی حکومت نے 14 جون 2019 کو ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 63 برس مقرر کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے حکومت کو سالانہ 24 ارب روپے کی بچت ہوگی اور اس رقم کو ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کیا جائے گا۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے صحافیوں کو فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھارت میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں موجود ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال سے زائد ہے اور چند دیگر ممالک میں عمر کی حد 67 سال سے بھی زائد ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 240 (ب) کے تحت صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس بارے میں صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں سول سرونٹ ایکٹ 1973 میں سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 50 سال مقرر کی گئی تھی جس کے بعد اسے بڑھا کر 60 برس کردیا گیا تھا۔
شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اوسط عمر 1973 میں 55 برس سے بڑھ کر 2018 میں 63 سال ہوچکی ہے تقریباً 5 ہزار ملازمین ہر سال ریٹائر ہوتے ہیں جبکہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی شرح بھی 50 فیصد ہے۔