کیا کُرتا، پاجامہ، شیروانی اور پان ہی ’مہاجر ثقافت‘ ہے؟
24 دسمبر کو کراچی کے کچھ نوجوانوں نے کسی واضح سیاسی اور سماجی فورم کے بغیر ’یومِ مہاجر ثقافت‘ منانے کا اعلان کیا۔ ’سماجی ذرائع ابلاغ‘ (سوشل میڈیا) پر اس دن کی بازگشت واضح طور پر سنائی دی، ساتھ ہی مختلف حلقوں کی جانب سے ایک سوال بار بار پوچھا جاتا رہا کہ آخر ’مہاجر ثقافت‘ ہے کیا؟
پہلے تو ہمیں یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ثقافت سے مراد ہر وہ چیز اور تصور ہے، جو انسان نے اپنے برتاؤ اور استعمال کے لیے وضع کیا۔ اس لیے ثقافت کی مادّی اور غیر مادّی دونوں صورتیں ہوتی ہیں۔
دنیا کے مختلف جگہوں پر رہنے والوں کے رہن سہن اور رنگ ڈھنگ بوجوہ جداگانہ ہوئے، تو ان کی ثقافت بھی اپنے آپ الگ ہوتی چلی گئی۔ یہ ایک لازم وملزوم سی چیز ہے۔ ہمارا ملک بھی طرح طرح کی ثقافتی رنگا رنگی لیے ہوئے ہے، بلکہ برِصغیر پاک وہند کو دنیا کا ایک متنوع ترین خطہ شمار کیا جاتا ہے، اور اس ثقافتی تنوع کو 1947ء کے بٹوارے سے جُڑی ہوئی ہجرت نے ایک عجیب ہی واقعے سے دوچار کیا۔
جب برِصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن ’پاکستان‘ قائم ہوا اور ہندوستان کے مختلف علاقوں سے اس ملک کی جانب ایک عظیم ہجرت عمل میں آئی اور بہت سے ستم رسیدہ ہجرت کرنے والے اپنی جیسی ثقافت میں سما گئے، تو کچھ دیگر ثقافتوں کے حامل بھی یہاں کی کثیر تعداد کا لگ بھگ جزو ہی بن گئے۔ البتہ کراچی، حیدرآباد اور اندرونِ سندھ وغیرہ میں یہ افراد اپنے جداگانہ رنگ ڈھنگ اور طور طریقوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ عرفِ عام میں آج انہیں ’مہاجر‘ کہا جاتا ہے اور 1960ء اور 1970ء کی دہائی سے ہی باقاعدہ انہیں ملک کی 4 قومیتوں کے بعد ’پانچویں قومیت‘ قرار دیا جانے لگا۔ جس سے اختلاف کرتے ہوئے آج بھی بہت سے لوگ ان کی ثقافت کے حوالے سے استفسار کر رہے ہیں کہ کیا کُرتا، پاجامہ، شیروانی اور پان ہی ’مہاجر ثقافت‘ ہے؟
یقیناً ثقافت اتنی محدود نہیں، تو پھر ہر بار اس سوال پر آکر بات رک سی کیوں جاتی ہے۔ جبکہ اردو بولنے والوں یا ’کراچی والوں‘ کے جداگانہ طرز کو قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف سے لے کر وزیرِاعظم عمران خان تک، سبھی نے مختلف موقعوں پر خوب تسلیم بھی کیا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ’مہاجر ثقافت‘ کی معلومات کے حوالے سے کافی تشنگی محسوس ہوتی ہے۔
پہلے تو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہیے کہ ہر چند کہ ’مہاجر قوم‘ کا خمیر ہندوستان کے مختلف مسلمان اقلیتی علاقوں سے اٹھا ہے، لیکن ہجرت اور اب ان کا ’مہاجر‘ کہلانا بذاتِ خود ہی اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ باہمی تال میل اور ماحول کی تغیر اور ایک بدلاؤ سے تو گزرے ہیں۔ اس لیے یہ سوال کہ ’مہاجر ثقافت‘ کیا ہوگی؟ دلی، لکھنؤ، حیدرآباد، بہار یا اور کسی علاقے کی؟
تو جناب متذکرہ بالا علاقے کے احباب ضرور الگ الگ کہہ لیں، لیکن آج بٹوارے کے 70 برس بعد ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ان تمام علاقوں کے افراد اب ایک جگہ رہتے ہیں اور ان کے ملتے جلتے رنگ ڈھنگ اور رسوم و رواج اب باہم مل سے گئے ہیں، اس لیے ان سبھی کے بہت سے واضح ثقافتی نفوذ کو ہم بجا طور پر آج ’مہاجر ثقافت‘ میں شمار کرسکتے ہیں۔
ذرا ٹھیریے، اگر آپ یہاں کسی قسم کی ’عصبیت‘ محسوس کرنے لگے ہیں، تو ہم آپ کو یہ یاد دلائیں کہ ثقافتی چیزیں، عین انسان کے فطری میلانات اور رجحانات کی تسکین کا باعث ہوتی ہیں، مجلسی مزاج انسان ظاہر ہے اردگرد اپنے جیسے لوگوں کو پاکر ایک سکون اور طمانیت محسوس کرتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ دوسروں سے نفرت کا پرچارک ہے، بس یہ اس کے فطری احساسات کی تکمیل کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کچھ اس موضوع پر اظہارِ خیال کیا جائے، تاکہ ایک ’قومیت‘ کے عین منطقی ثقافتی جذبات کو ذرا زبان بھی مل جائے۔
ذیل میں ہم محتاط انداز میں کچھ ایسی ہی ثقافتی چیزوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن یہ دھیان رکھیے کہ ضروری نہیں کہ ہم اپنی ہر روایت کو عین ’ہندوستانی‘ فریم میں رکھ کر دیکھیں۔ یہاں ’مہاجر‘ کہلانا ہی اس امر کا کھلا اظہار ہے کہ ’ہندوستان‘ ہمارا ماضی ہے، لیکن اب ہم یہاں ہیں اور یہ تاریخ کی گرد اور ایک ارتقائی عمل ہے، اس لیے ہمارا ہو بہو انہی جیسا دکھائی دینا اتنا ضروری بھی نہیں اور یہی شاید ہماری ’مہاجر ثقافت‘ کی تشکیل کی کچھ بنیاد بھی کہی جاسکتی ہے، کیونکہ اب ہمارا ثقافتی اثاثہ مشترکہ اور کچھ ہمارے اپنائے ہوئے نئے اجزا پر ہے۔
ساتھ یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ ملک کے اس ثقافتی گروہ اور اس میں پائے جانے والے ہلکے بھاری رنگوں کو بھی محفوظ رکھنا ضروری ہے، کیونکہ ملک کے ثقافتی گلدستے میں صرف اس ایک گروہ میں بِہار کے رنگ بھی ہیں، تو ’یو پی‘ اور ’سی پی‘ کی تہذیب بھی، دلی اور حیدرآباد کی آن بھی ہے، تو گجرات اور مدراس کی شان بھی۔ اسی طرح بمبئی اور راجستھانی طور بھی ہیں، تو کَچھیوں کے طریقے بھی۔ اور یہ لگ بھگ پورے برِصغیر کے دمکتے ہوئے رنگ گویا چَھن کر ہمارے ملک کی صرف ایک ثقافت میں جمع ہوگئے ہیں۔
مہاجروں کا اوڑھنا بچھونا
لباس شاید ثقافت کا سب سے واضح اور جَلی مظہر ہوتا ہے، اس لیے ہم اپنی بات بھی اسی سے شروع کرتے ہیں۔ شیروانی اور کرتے پاجامے کے ساتھ شیروانی کالر کی واسکٹ اس مہاجر ملبوس کی ایک نمایاں نظیر ہے۔ سیدھے پاجامے کے ساتھ چُست چوڑی دار پاجاموں کا چلن بھی موجود ہے۔ نوجوانوں میں ’سر پوش‘ کا اگرچہ رواج نہیں رہا، یہاں تک کے نماز پڑھتے ہوئے بھی لڑکے بالے ’چینی‘ ساختہ جالی دار ٹوپی کے اسیر دکھائی دیتے ہیں، لیکن آج بھی بہت سے بزرگ جناح کیپ، لیاقت کیپ، دو پلی ٹوپی اور رام پوری ٹوپی پہنتے ہیں، جبکہ علی گڑھ کیپ اور پُھندنے والی سرخ ترکی ٹوپی بھی اسی ثقافت میں شامل ہے۔
اسی طرح پاپوش میں ’سلیم شاہی‘ اور ’کولھا پوری‘ خاصی مروج ہے۔ خواتین کے ملبوسات کے لیے دوپٹے اور شلوار، قمیص کے ساتھ ساڑھی، غرارہ اور شرارہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ گھروں میں عام طور پر لکڑی کے ’تخت‘ اور ’گاؤ تکیے‘ وغیرہ بھی ’مہاجر ثقافت‘ کے مظاہر ہیں۔
مشاعرے سے ’سہرے‘ اور ’رخصتی‘ تک۔
ہمارے روایتی مشاعرے، اپنے میں ایک پوری تہذیب اور تمدن کے امین ہیں، جس کی اپنی پوری ایک روایت اور آداب ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عرصے پہلے کراچی میں فواد خان اور ان کے رفقا کی جانب سے ’داستان گوئی‘ کی محافل کا بھی خوب احیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ’چہار بیت‘ کی محفلیں سجانے والے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ’چہار بیت‘ میں مخصوص طرز پر دف کی تھاپ پر ایک کورس میں کلام پڑھا جاتا ہے۔
یہی نہیں زبان کے لطف کا ایک مظہر ’شادی کارڈ‘ بھی ہوتا تھا، لیکن آج اس ثقافتی مظہر پر ’انگریزی‘ براجمان ہونے لگی ہے۔ شادی کے موقع پر گائے جانے والے گیتوں کا بھی ایک علیحدہ ذخیرہ ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا جب دولہوں کے لیے شادیوں پر باقاعدہ ’سہرے‘ لکھوائے جاتے تھے اور پھر اسے خوش خط لکھوا کر گھر میں باقاعدہ فریم میں آویزاں کرایا جاتا تھا۔ اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے ’رخصتی‘ پڑھی جاتی تھی۔ یہ سب لوازمات اسی تہذیب کے عکاس ہیں۔
مہاجر انداز تخاطب اور لب و لہجے
زبان اور اس کے بولنے اور لکھنے کا ڈھب ایک نمایاں ترین ثقافتی جزو شمار ہوتا ہے۔ کہنے کو ’مہاجر ثقافت‘ میں زبان اردو کہی جاتی ہے، لیکن اب تو اردو کو سبھی اپنی اپنی طرح استعمال کرنے لگے ہیں، لیکن جو منفرد طرز اور اندازِ تخاطب ’مہاجر‘ تال میل میں موجود ہے، وہ اب بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔
عام زبان و بیان کی بات کی جائے تو نشست و برخاست میں احترام کے لیے اندازِ تکلم میں ’جمع‘ کے صیغے کا استعمال الگ ہی لطف دیتا ہے، پھر ’میں‘ کی جگہ ’ہم‘ کہنا، چاہے قواعد کی رو سے غلط ہو، لیکن یہ کلاسیکی طرز ہمارے تکلم کا ایک طرہ امتیاز ہے۔ یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ’آپ جناب‘ کا یہ چلن مغلظات سے نوازتے ہوئے بھی نہیں چُھوٹتا، جو غور کیا جائے، تو خاصا مضحکہ خیز معلوم ہونے لگتا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت بھی ہے۔
اب خالص دہلوی اور لکھنوی اردو کے روایتی دبستانوں کی شنید اگرچہ اس طرح نہیں، لیکن اردو کے اس لب و لہجے کے ساتھ بہار، حیدر آباد اور ’بھوج پوری‘ رنگ مہاجر ثقافت کے تنوع کی خبر دیتے ہیں۔ مختلف رشتوں کی بات کی جائے، تو بہت سے لوگ اب نہیں جانتے کہ برادر نسبتی یا سالے کی بیوی کو ’سَلج‘ کہتے ہیں، اور اپنے بچوں کو آپس میں بیاہنے والے یعنی دولہا اور دلہن کے والدین آپس میں سمدھن اور سمدھی کہلاتے ہیں، جبکہ ان کے گھرانے کو ’سمدھیانہ‘ پکارا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ تقریباً ہر مہاجر گھرانے میں دیکھیے تو بزرگوں کو ’باؤ جی‘ پکارے جانے کا رواج ہے، بھائی کے لیے بھیّا، بہن کے لیے آپا، آپی، اَیا، بجیا اور بجّو وغیرہ جیسے انداز تخاطب پائے جاتے ہیں۔ ملنے جلنے والی اور خاندان کی بہت سی خواتین کو آپا مُنّی، آپا چُنّی، آپا چڑیا اور آپا مینا وغیرہ جیسی شائستہ عُرفیت سے جانا جاتا ہے۔ مرد حضرات میں مُنے بھائی، بھائی مُنے، چُنّو بھائی، مُنّو، چاند میاں، نواب صاحب، اَچّھو، اَچّھن، بابو، چھامو، راجا اور چَھمّا وغیرہ کے القاب کی بازگشت آج بھی شہرِ قائد کی گلیوں میں خوب سنائی دیتی ہے، پھر ہر خاندان میں ایک دو خواتین ’چھمّی جان‘ تو ضرور ہی موجود ہوں گی۔ چھوٹی بچیوں کے نام گڑیا، رانی اور ’بے بی‘ ایسے پڑتے ہیں کہ پھر تاعمر لوگ ان کے اصل نام ہی بھول جاتے ہیں ۔
آپ نے دُور کے لیے لفظ ’پَرے‘ تو شاید کبھی سنا ہوگا، لیکن اس کا الٹ یعنی قریب کے لیے لفظ شاید نہ سنا ہو، جو ’وَرے‘ ہے، اسی طرح لفظ ’موہے ’میرے‘ کی جگہ، کاہے (کس لیے)، کَے (کتنے)، کیوں کر (کیسے)، دست پناہ (چمٹا)، چُٹلا (پراندہ)، مہاجر زبان کے کچھ روایتی اور کلاسیکی الفاظ ہیں۔ اسی طرح جب ہمارے پرانے گھر میں جب کوئی آنے والا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا، اور کواڑ کھولنے میں کسی وجہ سے کچھ دیر ہوتی تھی، تو وہ باہر موجود فرد کو یہ بتانے کے لیے کہ تمہاری دستک سن لی گئی ہے، ایک جوابی صدا ’بھلا‘ کرکے دی جاتی تھی، اب خدا جانے اس کا پس منظر کیا رہا ہوگا۔
’نعت خانہ‘ اور ’سِل بٹا‘ تو لگ بھگ اب متروک ہو چلا اور باورچی خانے میں نیچے بیٹھنے کا کام ختم ہوا، تو لوگ ’پیڑھی‘ بھی بھول گئے، جو زمین سے تھوڑا اونچا بیٹھنے کے لیے باقاعدہ چارپائی کی طرح بُنی جاتی تھی، البتہ ’ہاون دستہ‘ کہیں کہیں موجود ہے، جسے بہت سے گھرانوں میں ’امام دستہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ انتظار حسین نے بھی اسے ’امام دستہ‘ ہی برتا، مگر ایک عجیب بات ہے کہ اس میں سے کوٹنے والے ’آلے‘ کو ’دستے‘ سے علیحدہ کرلیں، تو پھر اسے ہاون یا امام کے بجائے ‘مُوسلی‘ (بولنے میں مُسلی) کہتے ہیں۔ پَن کُٹی چھوٹا امام دستہ ہوتا تھا، جو دراصل پان کوٹنے کو ہوتی تھی، تبھی یہ نام پڑا، لیکن اس میں بھی چھوٹے پیمانے پر امام دستے کا ہی کام لیا جانے لگا۔
لوریاں اور روایتی گیت
ہماری دادی اور نانی سے ’روایت بہ روایت‘ چلی آنے والی وہ غیر تحریری کہانیاں بھی ایک اہم ثقافتی جزو ہیں، جن کا سلسلہ اب کچھ منقطع سا ہونے لگا ہے۔ یہی نہیں بلکہ دیگر اقوام کی طرح یہاں ساون کے نغمے بھی ہیں، اور بچوں کی کھیل کھیل میں گائی جانے والی نظمیں بھی، اور ہم وہ دلفریب لوریاں کیسے بھول سکتے ہیں، جنہیں آج ماؤں کی ’مصروفیت‘ نگل کر رہ گئی ہے۔
پھر بچوں کا یہ کھیل ملاحظہ کیجیے، جو ہمارے بچپن میں بھی خوب تھا، جس میں قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت اور نانا کے دلّی جانے کا ذکر کیسے خوبصورتی سے پرویا گیا ہے، کہ بچہ ایک ترنم سے پڑھتا ہے اور اسے کھیل کھیل میں اپنے اسلاف کی خبر بھی مل جاتی ہے۔ یہ ہم نے کچھ یوں سنا: ’چَھم، چَھم، چَھم۔ آٹھ آنے کی چھالیا۔ آٹھ آنے کا پان۔ چل میرے گھوڑے ہندوستان۔ ہندوستان کی پہلی گلی۔ لیاقت علی کو گولی لگی۔ ساری دنیا رونے لگی۔ روتے روتے بھوک لگی۔ کھالو بیٹا مونگ پھلی۔ مونگ پھلی میں دانا نہیں۔ ہم تمہارے نانا نہیں۔ نانا گئے دلّی۔ دلّی سے لائے بلّی۔ بلّی نے دیے دو بچّے۔ اللہ میاں سچّے۔ سچّے سچّے جائیں گے۔ بھائی کی دلہن لائیں گے۔ بھائی کی دلہن کالی۔ سو نخروں والی۔ ایک نخرہ ٹوٹ گیا۔ بھائی کا منہ سوج گیا۔‘
اس کے علاوہ مہاجروں کے دیگر ریتی رواجوں کے تذکرے فاطمہ ثریا بجیا کے ڈراموں اور انور مقصود کے طنز و مزاح کی تحریروں میں بھی شامل ہیں۔ مہاجر ثقافت کے حوالے سے گہری نظر رکھنے والے صحافی محمد عثمان جامعی بتاتے ہیں کہ ’یوپی‘ کی روایتی لوریوں میں ٹیپو سلطان کا تذکرہ ملتا ہے، حالانکہ ٹیپو جنوبی ہندوستان کے تھے، لیکن مسلم نسبت سے ان کا شمالی ہندوستان (یوپی) میں تذکرہ آیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ دراصل ہندوستان کی جو مسلمان ثقافت تھی، اسے آج ہم ’مہاجر ثقافت‘ کا ’اصل‘ قرار دے سکتے ہیں۔
’حیدر آبادی اچار‘ سے ’بہاری کباب‘ تک!
حیدر آبادی چٹنیاں اور اچار، دلّی کی نہاری اور ’بہاری کباب‘ تو اپنے آپ بتاتے ہیں کہ ان کی نسبت کیا ہے، یہی نہیں ہماری ’فوڈ اسٹریٹ‘ پر دہلی بریانی، بمبئی بریانی، حیدر آبادی کھٹی دال، میرٹھ کے مشہور کباب اور لکھنؤ کے دیگر مشہور پکوانوں کے سجے ہوئے نام اس کی مثال ہیں۔ اور تو اور برنس روڈ پر ’دہلی' کے مشہور ’پاکستانی‘ دہی بڑے کا بورڈ پڑھیے، تو یہ اپنے آپ میں ایک منفرد سی چیز ہے، ظاہر ہے ’دہی بڑے‘ دلی کے ضرور ہیں، مگر اس کے ساتھ ’پاکستانی‘ کا لاحقہ بھی کیا عجب ہے۔
مہاجروں کے دیگر بہت سے پکوان اب دیگر قوموں کے مشترکہ رنگ میں اس قدر رنگ چکے ہیں کہ انہیں باآسانی متمیز کرنا خاصا دشوار لگتا ہے، البتہ ہجرت کرنے والوں کے خانے میں ہم حلیم، قورمہ، کوفتے، شب دیگ اور بھگارے بینگن وغیرہ کو باآسانی شمار کرسکتے ہیں۔ دیگر گھریلو کھانوں میں ہمارے ہاں ایک باریک پھلی ’سنگڑی‘ پکائی جاتی ہے، کچنار، جسے کچنال بھی پکارتے ہیں، اس کی کلیاں اور پھول پکتے ہیں، جو کچری کے قیمے جیسا لطف دیتے ہیں، اور گولر بھی پکائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ مونگ کی دال کی بنی ہوئی ’بڑیاں‘ بھی خوب ہیں، جنہیں آلو کے ساتھ بڑے اہتمام سے بنایا جاتا ہے۔ بیسن کی نمک پاروں کی شکل کی کھنڈویاں بھی ہمارا ایک مخصوص روایتی کھاجا ہے۔
اس کے علاوہ روغنی روٹی، تافتان اور شیرمال سے تو سبھی واقف ہوں گے، بہت سے مہاجر خاندانوں میں ’بے چیھنٹے کی روٹی‘ بہت مرغوب ہے، شادی بیاہ میں بالخصوص اس کا اہتمام ہوتا ہے، یہ دراصل وہ شیرمال ہوتا ہے، جو تنور سے نکال کر گرم گرم پیش کردیا جاتا ہے اور اسے نرم رکھنے کے لیے چھینٹا نہیں مارا جاتا اور نہ ہی اس پر چکنائی لیپی جاتی ہے، یہ ’گرما گرم شیرمال الگ ہی لطف دیتا ہے، تاہم ٹھنڈا ہوکر یہ بالکل بھوسی ٹکڑے کے موافق سخت ہوجاتا ہے، اس لیے اسے فوری طور پر نوش جان کرنا ہوتا ہے۔
شاہی حلیم سے لے کر شاہی ٹکڑوں تک ’شاہی‘ کا سابقہ اس کی اصل کا پتا خوب دیتا ہے۔ جلیبی، اِمرتی، سموسوں، پکوڑوں، نمک پاروں اور اَندرسے کی گولیوں سے ’نکتی دانوں‘ وغیرہ پر خاص ’مہاجر ثقافت‘ کا اجارہ کہنا تحقیق طلب امر ہے۔
اس کے علاوہ چٹخارے دار چیزوں میں کھجور کی سونٹھ کے ساتھ بتاشے، کباب مسالے، جسے ’لونگ چڑے‘ بھی کہتے ہیں، بھیل پوری اور میٹھی اور نمکین ’باقر خانی‘ سے لے کر ’نان ختائی‘ وغیرہ تک سبھی مہاجر تہذیب کی سوغاتیں ہیں۔ میٹھے اور مٹھائیوں میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ یہاں سے وہاں تک قبول عام ہو چلی ہیں، لیکن سوئیاں، شیر خرمہ اور لڈو وغیرہ ہجرت کرنے والوں کے ہاں کا خاصہ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ’مٹکا بریانی‘ اور کراچی میں مہاجروں کے درمیان پروان چڑھنے والے دیگر پکوان تو اس فہرست کا لازمی جزو ہیں ہی۔
ایک تحقیق کے مطابق بٹوارے سے پہلے کراچی میں نہاری اور بریانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجروں کے ساتھ ہجرت کرکے آنے والے دیگر کھانوں میں مختلف اقسام کے قورمے، نرگسی کوفتے، نورتن، بہاری بوٹی، روغن، جوش، کھچڑا، مرغِ مسلم، پسندے، سری پائے، بھنا گوشت، کٹاکٹ، سیخ کباب، دھاگے والے کباب، گولا کباب، ریشمی کباب، بیف بوٹی اور کوئلے پر بھنے ہوئے مختلف کھانے شامل تھے۔ اس کے علاوہ روے میدے کے پراٹھے، بیسنی پراٹھے، دودھ والی روٹی، تل والی روٹی، حلوہ پوری، پوری پراٹھا، پوری کچوری، گول گپے، فالودہ، ربڑی، کھیر، رس گلّے، رس ملائی، فیرنی اور مختلف مٹھائیاں بھی مہاجروں کے ساتھ اس دیس کے دسترخوانوں میں نئے ذائقے بھر گئیں۔
پان کھانا اور ’آداب‘ عرض کرنا
اپنے بزرگوں اور بڑوں کو سلام کرنے کے ساتھ تعظیماً آداب کہنا یا آداب کرنا ’مہاجر ثقافت‘ کا ایک خاصہ ہے۔ مشاعروں میں بھی شاعر اپنے کلام پر داد و تحسین کے جواب میں حاضرین کو آداب کرتا ہے، یہی طور زبانی سلام کرتے ہوئے ماتھے تک ہاتھ اٹھانے کی ایک رِیت کا باعث بھی ہے، بالخصوص مرد و خواتین جب آپس میں سلام کرتے ہیں، تو مصافحے کے بجائے اسی طرح ’السلام علیکم‘ کہتے ہوئے اشارے سے سلام کرلیتے ہیں۔
دوسری چیز پان کھانے کی روایت ہے، جو شاید اور بھی کہیں پائی جاتی ہو، لیکن اسے جو مَلکہ یہاں حاصل ہے، وہ اپنے میں ایک پوری تہذیب سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ مہمان داری کا ناصرف ایک اہم ترین جزو ہے، بلکہ پان کھانے اور کھلانے کے رواج اور اس کے آداب تو ایک علیحدہ تفصیلی باب کا متقاضی ہے، کہ جس میں پان کی پٹاری یا ’پان دان‘ اور سروتے سے لے کر کتھے، چونے، سونف، الائچی، گوٹے اور زردے کے ساتھ اس کا ’بیڑہ‘ بنانے سے لے کر اس کے تھوکنے کے لیے ’اُگال دان‘ تک سبھی کچھ پنہاں ہے۔
دسترخوان کی ثقافت کی بات کی جائے تو کھانا تناول کرتے ہوئے منہ میں سے کوئی چیز نکالنی پڑجائے، تو اس کے لیے دسترخوان پر باقاعدہ ’ثقل دان‘ کی روایت رہی ہے، جس میں ایسی سب چیزیں ڈالی جاتی تھیں، جنہیں نگلنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ اس کا مقصد یہ ہوتا کہ اس عمل سے دسترخوان پر موجود دیگر لوگوں کو کراہیت محسوس نہ ہو۔ اب ’ثقل دان‘ تو تقریباً متروک ہوگیا، لیکن ایسے موقعے پر منہ سے گھٹلی یا کوئی ہڈی وغیرہ نکالنے کا ادب یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کی مُٹھی بنا کر منہ سے اس میں نکالا جائے اور پھر دوسروں کو گھن سے بچانے کے لیے سلیقے سے دسترخوان پر اپنی رکابی (پلیٹ) کے اوٹ میں اپنی طرف رکھ لیا جائے۔
ہمیں اس طریقے کی مصلحت اور حکمت ایک مرتبہ تب سمجھ میں آئی، جب ہمارے ساتھ کھانے والے ایک صاحب نے منہ میں آنے والی املی کی گھٹلی کو براہ راست یوں ہی دسترخوان پر اُگل دیا اور وہ گھٹلی میز پر ٹپا کھا کر یوں اچھلی کہ رَکابی میں آتے آتے بچی، بس وہ دن ہے کہ ہمیں اس ادب کی سمجھ بہت اچھی طرح سے آگئی۔ دوسری بات یہ کہ یوں بھی کھانے کے دسترخوان پر براہِ راست منہ سے کچھ نکالنے سے تو تھوکنے کا شائبہ ہوتا ہے، جو ویسے ہی کھانے کی بے ادبی ہے۔ روٹی رکھنے کے مخصوص ڈھکنے والے برتن کو آج بھی ’چنگیر‘ کہا جاتا ہے، کچھ سہل پسند اسے روٹی دان بھی کہتے ہیں۔
لسانی تنوع، ’غدر‘ اور ہجرتی ادب
ہجرتی تاریخ اور ’غدر‘ مہاجر ثقافت کا ایک اہم باب ہے۔ 1857ء تا 1947ء ’مہاجر‘ تاریخ کا ایک ایسا ورثہ ہے، جسے کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ 90 برس کا یہ زمانہ اپنے میں ایک پوری جدوجہد اور بہت سے المیے سمیٹے ہوئے ہے۔ بتدریج ہونے والے زوال نے میرٹھ سے 1857ء کی ’جنگِ آزادی‘ اٹھائی اور اس کے شعلوں سے جب دارالسلطنت دلی بھسم ہوئی، تو اس طرف کے مسلمانوں نے اس کی ایک بہت بڑی قیمت ادا کی، اور پھر اس سفر میں 1947ء کا ایک ایسا پڑاؤ آتا ہے، جس نے ایک نیا باب رقم کیا۔
یہ وہ تاریخ ہے جس نے ہمارے رہن سہن، تہذیب و تمدن سے لے کر تمام رکھ رکھاؤ پر گہرے اثرات بھی مرتب کیے۔ یہی تاریخ اور داستانیں دراصل ’مہاجر ثقافتی ورثہ‘ ہیں، ’غدر برپا کر دینا‘ جیسے زبان زدِ عام محاورے آج بھی اسی کی یاد دلاتے ہیں۔
خواجہ حسن نظامی کی مختلف تصانیف، بالخصوص ’بیگمات کے آنسو‘ اسی ’جنگِ آزادی‘ کی المناک شبیہ کو محفوظ کیے ہوئے ہے، جبکہ شاہد احمد دہلوی کی ’دلی کی بپتا‘ اور ’دلی کا پھیرا‘ میں 1947ء کے بٹوارے کے عکس واضح دکھائی دیتے ہیں۔
ملا واحدی کی کتاب ’میرے زمانے کی دلی‘ اور انتظار حسین کے ناول، افسانے اور مختلف کتب سے لے کر مشتاق احمد یوسفی کے مزاح میں جا بجا بکھرے ہوئے رنگ اس تہذیب وتمدن کی خبر خوب دیتے ہیں۔ اس فہرست میں اشرف صبوحی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے اور دیگر مہاجر اکابرین کی خود نوشتیں اس ادب اور تحریری تاریخ کا باقاعدہ حصہ شمار کی جاسکتی ہیں۔
رئیس امروہوی، محسن بھوپالی، افتخار عارف اور عارف شفیق وغیرہ کے کلام اور قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی، الطاف فاطمہ اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کی نثر بھی اس ادبی ورثے میں گنی جا سکتی ہے۔ اس باب میں جمیل الدین عالی کے اخباری کالموں کو بھی ایک مرتبہ حاصل ہے اور اس سب کے پس منظر میں حیدرآباد دکن کے ’ولی دکنی‘ سے لے کر میرامن دہلوی کی ’باغ و بہار‘ اور مرزا رجب علی بیگ سرور کا ’فسانہ عجائب‘ بھی بطور تاریخی تبرک اور بنیاد کے طور پر شامل کیا جاسکتا ہے۔
منفرد تعمیرات اور گھروں کی بناوٹ
تعمیرات ثقافت کا ایک نہایت اہم جزو ہے۔ ہم نے اپنے گھروں میں بزرگوں کی وہی روایتی مکانوں اور حویلیوں کی نقل دیکھی۔ شہر کی تنگی نے اگرچہ ’انگنائی‘ کو محدود کیا، لیکن یہ ڈیوڑھی جس کے دَر، کِواڑ کہے گئے، ان کے اوپر روشن دانوں کا اہتمام، مٹکوں کے گھڑے، مچان اور دو چھتی، اور منہ ہاتھ دھونے کے لیے پانی کے نل کے گرد بنایا گیا احاطہ جسے ’ہودی‘ کہا جاتا، یہ سب ملے جلے رنگ اسی ثقافت کے ہی نمونے ہیں۔
دلی کی چھتی ہوئی پتلی گلیاں جنہیں چَھتّا کہا جاتا تھا، ان کی کچھ پرچھائیں ہمیں کراچی میں بھی دکھائی دیں۔ اس کے علاوہ کراچی کی دہلی مرکنٹائل سوسائٹی، بہار کالونی، کچھی میمن ہاؤسنگ سوسائٹی، لکھنؤ سوسائٹی، کوکن سوسائٹی، حیدرآباد کالونی، سی پی برار سوسائٹی، روہیلکھنڈ سوسائٹی، میمن سوسائٹی، علی گڑھ کالونی، بنارس کالونی، یو پی موڑ، آگرہ تاج کالونی، گودھرا کالونی، بنگلور ٹاؤن اور دہلی کالونی وغیرہ اسی ثقافت کے نشان ہیں۔
اسی طرح اورنگ آباد والوں نے یہاں اپنی بستی کو ’اورنگی ٹاؤن‘ کرلیا، تو بہادر یار جنگ سے منسوب علاقہ ’بہادر آباد‘ کہلایا، پھر وہاں ’حیدر آباد (دکن) کے مشہور زمانہ ’چار مینار‘ کی شاہکار ’شبیہہ‘ موجود ہے، جو کسی بھی طرح ’دکن‘ کے چار مینار سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح امروہہ گراؤنڈ اور کوکن گراؤنڈ بھی یہاں موجود ہیں اور دلّی کے معروف ’پہاڑ‘ گنج کی شنید بھی اورنگی ٹاؤن میں خوب مل جاتی ہے۔
نمایاں شخصیات
’مہاجر ثقافت‘ کو مذکور کرتے ہوئے ہم کچھ شخصیات کا ذکر کریں، تو یقیناً اس میں ایسے بہت سے اشخاص بھی شامل ہیں، جس پر بجا طور پر ملّی اور ادبی تعلق سے دیگر اقوام بھی فخر کرسکتی ہیں۔ انہیں اس زمرے میں گننے سے یقیناً ہمارا مقصد انہیں محدود کرنا نہیں، جس طرح بہت سی اقوام کے مشاہیر ان کی ثقافت میں شمار ہونے کے باوجود بھی ہمہ گیر رہتے ہیں، ایسے ہی یہ شخصیات سب کے ساتھ مہاجر قوم کے لیے اور بھی زیادہ فخر کا باعث ہیں۔
جیسے جدوجہد کے حوالے سے بخت خان اور ’غدر‘ کے دیگر نمایاں کردار ہمارے تاریخی ورثے کا حصہ ہیں۔ اردو میں بہت سی روایات کا سہرا امیر خسرو کے سر ہے، اسی طرح ثقافتی اور تہذیبی سنگھاسن پر سر سید احمد خان اور مرزا اسد اللہ خاں غالب نمایاں دکھائی دیتے ہیں اور میر تقی میر، شبلی نعمانی، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد اور ڈپٹی نذیر احمد جیسی شخصیات کے مراتب بھی نمایاں ہیں، جن سے ہم نے اپنی روایات اور اقدار کو کشید کیا۔ اسی طرح تاریخی طور پر ہم نوابزادہ لیاقت علی خان، مولانا محمد علی جوہر، راجا صاحب محمود آباد اور ابوالحسن اصفہانی سے لے کر حسرت موہانی اور نظامِ حیدرآباد میر عثمان علی خان تک مختلف شخصیات کو بجا طور پر اس میں شامل کرسکتے ہیں، جنہوں نے جدوجہدِ آزادی میں اپنا کلیدی، نمایاں ترین اور فعال کردار ادا کیا۔
تبصرے (10) بند ہیں