اسلام آباد میں نوجوان کا قتل: پولیس ریکارڈ تضاد کے سامنے آنے پر سیل
اسلام آباد: 2 جنوری کو علی الصبح 21 سالہ اسامہ ستی کے قتل سے متعلق تمام ریکارڈ سینئر افسران کی ہدایت کے تحت اسلام آباد پولیس نے سیل کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس افسران نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈان کو بتایا کہ ریکارڈ سیل کردیے گئے ہیں کیونکہ اس میں تضاد ہے۔
دو ریکارڈ میں دیکھا گیا کہ پولیس نوجوان کی گاڑی روکنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
کمیونکیشن کے ریکارڈ کے مطابق ایک سفید رنگ کی کار میں سوار ایک شخص جرم کے بعد شاہراہ کشمیر پر گولڑہ کی طرف جارہا تھا اور راستہ بند کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی تھی۔
ذرائع نے ریکارڈ کے حوالے سے بتایا کہ ریکارڈ میں ایک گاڑی کو جی-10 سگنل سے پولیس لائنز کی طرف جاتے دیکھا گیا، ایک سب انسپکٹر جو نوجوان کو گولی مارنے والے عہدیداروں میں شامل تھے، انہوں نے جی -10 سگنل کے قریب گاڑی کو روکا تھا۔
صبح 2 بجے کے ایک اور ریکارڈ سے انکشاف ہوا ہے کہ کار کو روکا گیا تھا اور وہ جی ۔10 سگنل پر رک گئی تھی۔
پولیس اہلکاروں نے کار پر فائرنگ کی اور اس کے نتیجے میں کار میں سوار نوجوان کی موت واقع ہوگئی۔
رات کے 2 بجے کے ایک اور ریکارڈ کے مطابق جی -10 میں پولیس نے کار پر فائر کیا، کار پشاور موڑ کی طرف جارہی تھی۔
دریں اثنا چیف کمشنر اسلام آباد عامر علی احمد کی تشکیل کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے کیس کی تحقیقات شروع کردی۔
جے آئی ٹی نے اس معاملے میں گرفتار پانچ پولیس عہدیداروں کے بیان ریکارڈ کیے۔
اس ٹیم کی سربراہی سپرنٹنڈنٹ پولیس صدر زون سرفراز ورک کررہے ہیں اور اس میں ایس ڈی پی او رمنا ذوالفقار احمد، ڈی ایس پی انوسٹی گیشن نواز بھٹی، حکیم خان، ایس ایچ او رمنا تراب الحسن اور خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہیں۔
ٹیم نے جائے وقوع کا دورہ بھی کیا اور علاقے کا جائزہ لیا اور قومی فرانزک اور سائنس ایجنسی (این ایف ایس اے) کی مدد سے نوجوانوں کی کار کا معائنہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان جاں بحق، دہشتگردی کا مقدمہ درج
این ایف ایس اے ایک ہفتے میں جے آئی ٹی کو گاڑی پر گولیوں سے چلنے والی گولیوں اور ان کے نشانات پر رپورٹ پیش کرے گا۔
علاوہ ازیں کمشنر کی ہدایت پر واقعے کی عدالتی انکوائری بھی شروع کردی گئی ہے۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رانا محمد وقاص انکوائری کر رہے ہیں جنہوں نے پولیس عہدیداروں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے اور جائے وقوع کا معائنہ کیا۔
مارچ 2020 میں اسلام آباد پولیس کے عہدیداروں نے دو افراد اسامہ ستی اور عامر وحید کو قتل اور دو دیگر شہریار اور فیصل ملک کو زخمی کردیا تھا۔
ابھی تک کوئی عدالتی تحقیقات نہیں ہوئیں اور پولیس اب بھی یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہلاک اور زخمی ہوئے تھے جو پولیس اہلکار بھی تھا۔
جب ان دونوں متاثرین کے لواحقین فیصل ستی اور مظہر ستی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ پولیس نے اب اس میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے اور انہیں دیت اور معاوضے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سینئر پولیس افسران نے واقعے کے 5 ماہ بعد سے خاندان سے کئی بار ملاقات کی اور معذرت کی۔
انہوں نے پولیس عہدیداروں پر عدالتی مقدمے کا چالان بھی کیا اور اہل خانہ کو آگاہ کیا کہ واقعے میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد ہوگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سینئر عہدیداروں نے اہل خانہ سے کیس کو آگے بڑھانے کے بجائے معاملہ طے کرنے کی درخواست کی۔
نومبر 2020 میں بھی ایک شخص پولیس کی تحویل میں ہلاک ہوگیا تھا اور اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا جو تاحال زیر التوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد میں دو علیحدہ واقعات میں جرمن شہری اور فوجی قتل
اس واقعے میں مبینہ طور پر ملوث پولیس افسران کو معطل کرکے انہیں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انسپکٹر جنرل پولیس محمد عامر ذوالفقار خان اور ان کے ترجمان ضیاء باجوہ سے تازہ واقعے پر ان کے تبصرے کے لیے رابطہ نہیں کیا جاسکا۔
پارلیمانی کمیٹی کی مذمت
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سینیٹر رحمٰن ملک سے ملاقات میں اسلام آباد پولیس کے نوجوان کے قتل کے واقعے کی مذمت کی۔
اجلاس میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے علاوہ دیگر افراد نے بھی شرکت کی۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کو مثالی پولیس سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے واقعات پورے ادارے کی ساکھ کو داغدار کردیتے ہیں۔
انہوں نے حکم دیا کہ واقعے کی تمام زاویوں سے تحقیقات کی جائیں اور 10 دن میں کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پولیس کو جے آئی ٹی کی رپورٹ کی تفصیلات پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ شیئر کرنے کی ہدایت کی۔
راجا خرم شہزاد نواز کی زیرصدارت اجلاس میں کمیٹی کو ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) وقار الدین سید نے واقعے سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس کی ایک موبائل وین کو ایک وائرلیس میسج ملا تھا کہ ایچ -11 میں ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے اور ملزمان سفید گاڑی میں فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
بدقسمتی سے اسامہ ستی بھی کالے شیشوں والی سفید کار چلا رہا تھا۔
ڈکیتی کی واردات سے واقف پولیس عہدیداروں نے گاڑی روکنے کی کوشش کی تاہم کار رک نہیں سکی لہذا پولیس نے اسے روکنے کے لیے فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں نوجوان کی موت ہوگئی۔
قومی اسمبلی کی کمیٹی کو یقین دلایا گیا کہ تفتیش خالصتاً میرٹ پر کی جائے گی۔
اجلاس میں جاں بحق افراد کے قانونی ورثاء نے بھی شرکت کی۔