سپریم کورٹ کی 30 نئی احتساب عدالتوں کو ایک ماہ میں فعال کرنے کی ہدایت
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو مستقل سیکریٹری قانون تعینات کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں 30 نئی احتساب عدالتوں کو فعال کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، جہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود، قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر و دیگر حکام پیش ہوئے۔
دوران سماعت نئی احتساب عدالتوں کے قیام، سیکریٹری قانون کی عدم دستیابی اور لاکھڑا پاور پلانٹ کرپشن کیس کا معاملہ زیر غور آیا۔
مزید پڑھیں: کرپشن مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار نیب ہے، سپریم کورٹ
چیف جسٹس نے پوچھا کہ احتساب عدالتوں کے قیام کو کیوں لٹکایا جارہا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے کہا کہ وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ سے منظوری ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 11 جنوری سے عملے کی بھرتیاں شروع ہوں گی۔
اس موقع پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سیکریٹری قانون کی عدم دستیابی کا بھی نوٹس لیا اور وفاقی حکومت کو مستقل سیکریٹری قانون تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ وزارت قانون کو ایڈہاک ازم پر نہیں چلایا جا سکتا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے یہ بھی پوچھا کہ احتساب عدالتیں کیا کر رہی ہیں؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاکھڑا پاور پلانٹ کرپشن کیس میں 29 میں سے 18 گواہان کے بیانات ہوگئے ہیں، نیب 7 گواہان کے بیان نہیں کرائے گا۔
پراسیکیوٹر جنرل سید اصغر حیدر کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت میں اب تک 29 سماعتیں ہوئیں، نیب نے صرف ایک التوا لیا۔
انہوں نے بتایا کہ نیب نے التوا پراسیکیوٹر کو کورونا وائرس ہونے کی وجہ سے لیا جبکہ ملزمان کی جانب سے بار بار التوا مانگا گیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کراچی کو لاکھڑا پاور پلانٹ کرپشن کیس کا فیصلہ رواں ماہ کرنے کی ہدایت کردی۔
ساتھ ہی عدالت نے نیب اور حکومت سے پیش رفت رپورٹس بھی طلب کرلیں، جس کے بعد کیس کی سماعت کو فروری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردیا گیا۔
واضح رہے کہ جولائی 2020 میں سپریم کورٹ نے سیکریٹری قانون کو حکم دیا تھا کہ وہ کیسز کے بڑے بیک لاک کو ختم کرنے کے لیے کم از کم 120 احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لیے حکومت سے فوری طور پر ہدایات حاصل کریں۔
سپریم کورٹ کی جانب سے یہ ہدایات سال 2000 سے 1226 ریفرنسز کے زیر التوا ہونے سمیت مجموعی طور پر 25 میں سے 5 احتساب عدالتوں میں اسامیاں خالی ہونے پر مایوسی کے اظہار کے بعد سامنے آئیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے ستمبر میں پورے ملک میں 120 احتساب عدالتیں قائم کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم نے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی اصولی منظوری دے دی
اس منصوبے میں ملک بھر میں اضافی احتساب عدالتوں کے قیام کے لیے انسانی وسائل کی مجموعی ضروریات اور مالی مضمرات شامل تھے۔
وزارت قانون کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ منصوبہ قانون اور انصاف ڈویژنز کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
بعد ازاں اکتوبر 2020 میں وزیر اعظم عمران خان نے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام کی اصولی منظوری دے دی تھی۔
وفاقی وزارت قانون و انصاف ڈویژن کی طرف سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ مالی مشکلات کے پیش نظر پہلے مرحلے میں 30 نئی احتساب عدالتیں تشکیل دی جائیں گی جبکہ باقی عدالتوں کا قیام مقدمات کے دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے مرحلہ وار عمل میں لایا جائے گا۔
یاد رہے کہ اس وقت ملک بھر میں 24 احتساب عدالتیں کام کر رہی ہیں جو اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور، لاہور، ملتان، کراچی، حیدرآباد، سکھر اور کوئٹہ میں ہیں۔