• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

حکومت کیلئے پی ڈی ایم مزید خطرہ نہیں، یہ اپنی موت مرگئی ہے، وزیراعظم

شائع January 5, 2021
وزیراعظم نے ترجمانوں کے اجلاس سے تبادلہ خیال کیا—فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیج
وزیراعظم نے ترجمانوں کے اجلاس سے تبادلہ خیال کیا—فائل فوٹو: عمران خان فیس بک پیج

اسلام آباد: اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی بہاولپور ریلی کے بعد وزیراعظم کے ترجمانوں کی ٹیم نے عمران خان کی لائن کے یہ تحریک ختم ہوچکی ہے کو اپناتے ہوئے ایک جارحانہ مؤقف اپنا لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مختلف ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز میں شرکت سے قبل ترجمانوں نے وزیراعظم ہاؤس میں ایک ذہن سازی کے اجلاس میں شرکت کی جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔

اس اجلاس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کے لیے مزید خطرہ نہیں رہی۔

علاوہ ازیں ڈان سے گفتگو میں اجلاس میں شریک ایک فرد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم تقریباً ختم ہوچکی ہے اور یہ اپنی ہی موت مرگئی ہے، لہٰذا یہ حکومت کے لیے مزید خطرہ نہیں ہے‘۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کی حکومت مخالف مہم لاہور میں دفن ہوگئی، وزیراعظم

انہوں نے ترجمانوں کو میڈیا میں اپوزیشن کو ’سخت ٹائم‘ دینے کی ہدایت کی، جسے تب دیکھا جاسکتا ہے جب ترجمانوں کی جانب سے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔

وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اپوزیشن اپنے رہنماؤں جنہوں نے قوم کی دولت لوٹی اور اب کرپشن ریفرنسز کا سامنا کر رہے ہیں ان کے لیے قومی مصالحتی آرڈیننس (این آر او) جیسی رعایت حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر آئی۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم کی پوری تحریک کا مقصد این آر او حاصل کرنا ہے لیکن میں انہیں کوئی رعایت نہیں دوں گا‘۔

ترجمانوں کی ٹیم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ان رہنماؤں پر مشتمل ہے جو اکثر ٹی وی اسکرین پر آکر مختلف معاملات پر حکومتی نقطہ نظر اور وزیراعظم کا بیانیہ پیش کرتے ہیں۔

ان افراد میں وزیر اطلاعات شبلی فراز، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر صنعت حماد اظہر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوان عثمان ڈار، سینیٹر فیصل جاوید، وزیر مواصلات مراد سعید، ندیم افضل گوندل، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے اطلاعات رؤف حسن، معاون خصوصی شہباز گل، ولید اقبال، کنول شوزیب، ملیکہ بخاری، وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور صداقت عباسی شامل ہیں۔

وزیراعظم، ترجمانوں کے ساتھ روزانہ بنیادوں پر ملاقات کرتے ہیں جس میں وہ انہیں گائیڈ لائن دیتے ہیں کہ کس طرح میڈیا پر اپوزیشن کا مقابلہ کرنا ہے۔

دوسری جانب پارٹی کے ایک سینئر رہنما کے مطابق وزیراعظم ذاتی طور پر مختلف ترجمانوں کو بذریعہ واٹس ایپ ان کی کارکردگی پر رائے دیتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک اجلاس بہاولپور میں پی ڈی ایم کی ریلی کے اگلے روز پیر کو ہوا تھا، جس میں وزیراعظم نے کہا کہ اپوزیشن کی تحریک میں دراڑیں آگئی ہیں کیونکہ کچھ بڑی جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ استعفے نہیں دیں گی اور وہ آئندہ سینیٹ انتخابات لڑنے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔

اجلاس میں شریک ایک اور فرد نے بتایا کہ وزیراعظم نے اپنی ٹیم کو ہدایت کی کہ وہ میڈیا میں حکومت کی کارکردگی کو بھرپور طریقے سے پیش کرے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ حکومت نے ان ڈھائی برسوں میں کیا کیا ہے خاص طور پر معاشی اعتبار سے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نئے سال میں حکومت لوگوں کو بنیادی حقوق اور سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرے گی۔

علاوہ ازیں ترجمانوں میں سے ایک کنول شوزیب نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ وزیراعظم کی ٹیم ’سخت جان‘ (ڈائی ہارڈ) ترجمانوں پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم ڈائی ہارڈ ترجمان ہیں، جو اپوزیشن کے ان ترجمانوں کی طرح نہیں جو نسلوں کے لیے غلام ہیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ریاستی اداروں خاص طور پر فوج پر تنقید کرکے بھارتی میڈیا کے مقصد کو پورا کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم نےعوام کی زندگیاں خطرے میں ڈال کرسنگدلی کا مظاہرہ کیا، وزیراعظم

مزید برآں ایک اور ترجمان نے بتایا کہ وزیراعظم نے اجلاس میں آنے والے سینیٹ انتخابات سے متعلق بھی تبادلہ خیال کیا اور اُمید ظاہر کی کہ پی ٹی آئی ایوان بالا میں اکثریت حاصل کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ انتخابات سیکریٹ بیلٹنگ کے بجائے شو آف ہینڈز کے ذریعے کروانے کے معاملے پر حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ایک مرتبہ سپریم کورٹ ہمیں گائیڈ لائنز دے دے، ہم اس کے مطابق کام کریں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو ضروری قانون سازی کریں گے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024