ایران نے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کا عمل شروع کردیا
ایران نے یورینیم کی افزودگی سے متعلق اپنے ارادے کو حقیت میں بدل دیا اور یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کا عمل شروع کردیا۔
واضح رہے کہ 2 جنوری کو ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگراں کے ادارے کو یورینیم کی افزودگی سے متعلق اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ایران کا یورینیم کی افزودگی 20 فیصد بڑھانے کا عندیہ
سرکاری ترجمان علی ربیئی نے ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ کو بتایا کہ ’شاہد علی محمدی افزودگی کمپلیکس (فورڈو) میں 20 فیصد یورینیم کی افزودگی کا عمل شروع ہوچکا ہے‘۔
عہدیدار کے مطابق ’ایرانی صدر حسن روحانی نے حالیہ دنوں میں افزدوگی کے عمل کا حکم دیا اور گیس انجیکشن کا عمل چند گھنٹوں پہلے ہی شروع ہوا‘۔
دوسری جانب مذکور پیش رفت سے متعلق یورپی یونین نے کہا کہ ایران کی جانب سے یورینیم میں افزودگی کا پروگرام جوہری معاہدے سے ’بہت حد تک بے دخلی‘ کے مترادف ہے۔
جوہری توانائی کے نگراں ادارے (آئی اے ای اے) نے یورینیم کی افزودگی سے متعلق ایران کے ارادے کی تصدیق کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا یورینیم کی افزودگی کے منصوبے کے آغاز کا اعلان
یورپی یونین کے ترجمان پیٹر اسٹانو نے کہا کہ برسلز میں اقوام متحدہ کے جوہری نگراں کے ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر کی جانب سے بریفنگ کا انتظار کریں گے کہ اس سے ضمن میں کیا اقدام اٹھایا جائے۔
نومبر میں شائع ہونے والی آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق تہران اس سے قبل 2015 کے ویانا معاہدے (3.67 فیصد) کی حد سے کہیں زیادہ یورینیم کی افزودگی کررہا تھا لیکن 4.5 فیصد کی حد سے تجاوز نہیں کیا۔
امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور آئی اے ای اے کا خیال ہے کہ ایران کے پاس ایک خفیہ اور مربوط جوہری ہتھیاروں کا پروگرام تھا جو 2003 میں روک دیا گیا تھا۔
نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ واشنگٹن، ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے مقصد سے مشترکہ جامع منصوبے میں شامل ہوجائے گا۔
جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس نے کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مثبت پیش رفت کے لیے 'آخری کھڑکی' موجود ہے جسے 'ضائع نہیں ہونا چاہیے'۔
مزیدپڑھیں: ایران کے نامور جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ قتل
ایران کی جانب سے یورینیم کی افزودگی سے متعلق بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب نومبر 2020 میں ایران کے نامور جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو دارالحکومت تہران کے قریب فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔
ایران نے کہا تھا کہ جوہری سائنسدان کے قتل میں اسرائیلی اسلحہ استعمال ہوا تھا۔
واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا، جس کا مقصد خطے میں ایران کو اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور میزائل پروگرام سے دستبرداری تھا۔
8 مئی 2018 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے چین، روس، برطانیہ، جرمنی سمیت عالمی طاقتوں کے ہمراہ سابق صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔
5 مارچ 2019 کو اقوام متحدہ کے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے ادارے نے کہا تھا کہ ایران 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے کی تعمیل کررہا ہے اور مزید ہتھیاروں کی تیاری سے گریز کرنے پر کاربند ہے۔
یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے دیگر عالمی طاقتوں بشمول برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے مابین ویانا میں ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق طے پانے والے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔
ایران نے بھی اس معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ ایران بلیسٹک میزائل بنانے کے تمام پروگرام بند کردے گا اور اس معاہدے کے متبادل کے طور پر ایران پر لگائی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی اور اسے امداد کے لیے اربوں روپے حاصل ہوسکیں گے۔