'مغوی' وکیل بازیاب، عدالت کی معاملہ وزیراعظم و کابینہ کے نوٹس میں لانے کی ہدایت
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گھر سے ’اغوا‘ ہونے والے وکیل حماد سعید ڈار بازیابی کے بعد عدالت پہنچ گئے جبکہ عدالت عالیہ نے مذکورہ کیس میں سیکریٹری داخلہ کو معاملہ وزیراعظم اور کابینہ کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ کی عدالت میں ایڈووکیٹ حماد سعید ڈار کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، اس موقع پر حماد سعید ڈار خود عدالت پہنچ گئے۔
اس موقع پر ڈی آئی جی آپریشنز وقار الدین سید بھی عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایس پی صدر سرفراز ورک اور ایس پی انویسٹی گیشن ملک نعیم بھی عدالت میں موجود تھے۔
عدالت میں جب کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عدالت میں پیش ہونے والے وکیل حماد سعید ڈار نے کہا کہ گھر سے مجھے اٹھایا گیا تو چہرے پر ماسک اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، جس کے بعد 25 سے 30 منٹ تک گاڑی چلائی گئی اور پھر ایک کمرے میں لے گئے۔
مزید پڑھیں: ایڈووکیٹ حماد کے 'اغوا' کے خلاف بار ایسوسی ایشن نے ہڑتال کا اعلان کردیا
اس پر چیف جسٹس نے پولیس کے فوری ردعمل سے متعلق پوچھا تو ڈی آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ ہم نے فوری طور پر ایف آئی آر درج کر دی تھی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ فوری طور پر تو کچھ نہیں کیا گیا تھا۔
ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ متعلقہ ایس ایچ او کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے، اس پر ڈی آئی جی نے بتایا کہ ایس ایچ او کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بڑے آدمی کا بیٹا غائب ہونے پر جس طرح ایکشن کیا جاتا ہے، عام آدمی کے لیے بھی ویسے ہی لیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حماد سعید ڈار نے بتایا ہے کہ انہیں اغوا کیا گیا تھا، شکر ہے کہ حماد سعید واپس آ گئے تاہم ریاست کا رویہ درست نہیں تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد، وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ ہے، وفاقی حکومت کا مطلب وزیراعظم اور وفاقی کابینہ ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس سے 10 دن میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ گہرائی میں جا کر تفتیش کر کے رپورٹ عدالت میں رپورٹ پیش کریں۔
اس موقع پر عدالت میں موجود اسلام آباد ہائیکورٹ و اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار نے کہا کہ ہم اس عدالت کے بے حد مشکور ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر حماد سعید بازیاب نہ ہوتے تو یہ عدالت کارروائی کرتی۔
چیف جسٹس نے ڈی آئی جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے اور یہ ہر بار ہو رہا ہے جبکہ اب تک کبھی بھی پتا نہیں چلا کہ یہ کیا کس نے ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ اس بار گہرائی میں جاکر تفتیش کریں اور اس کیس کو مثال بنائیں۔
بعد ازاں مذکورہ کیس کی آج کی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو معاملہ وزیراعظم اور کابینہ کے نوٹس میں لانے کی ہدایت کردی۔
عدالت نے کہا کہ اُمید ہے وزیراعظم اس معاملے پر مناسب اقدامات کریں گے، آئندہ سماعت پر آئی جی اسلام آباد پولیس، سیکریٹری داخلہ واقعے کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، 1400 اسکوائر میل پر مشتمل وفاقی دارالحکومت میں جرائم کی شرح بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ڈی آئی جی آپریشنز وقارالدین سید نے عدالت کو معاملے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے تھانہ ترنول کی حدود سے ایڈووکیٹ حماد سعید ڈار کو گھر سے 'اغوا' کرنے کے اقدام کے خلاف ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔
کچھ لوگ گھر میں گھسے اور زبردستی مجھے ساتھ لے گئے، حماد سعید
علاوہ ازیں اپنی رہائی کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں حماد سعید ڈار کا کہنا تھا کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے وکلا اور میڈیا کی کوششوں کی وجہ سے رہا کردیا گیا ہوں، میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا تہہ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے چھٹی کے دن میرے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایکشن لیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد بار کونسل، اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے بروقت میری ’غیرقانونی گرفتاری‘ کے خلاف احتجاج کیا اور آواز اٹھائی جس سے میری رہائی ممکن ہوئی۔
عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں حماد سعید ڈار کا کہنا تھا کہ جمعہ کی رات ڈیڑھ بجے کے قریب گھنٹی بجی اور کچھ لوگ اندر آئے اور والد کو کہا کہ آپ کے بیٹے سے ملنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے 'اغوا'
ان کا کہنا تھا کہ 12 سے 15 لوگ تھے جس میں سے 2 کو اندر بلایا گیا، مگر 10 کے قریب لوگ زبردستی گھر کے اندر گھس آئے اور مجھے دیکھتے ہی انہوں نے دھکم پیل شروع کر دی اور مجھے پکڑ لیا۔
حماد سعید ڈار کا کہنا تھا کہ ان لوگوں نے میری چیزیں، لیپ ٹاپ، موبائل لے کر میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور مجھے ساتھ لے گئے، جس کے بعد گاڑی پر بٹھا کر 30 منٹ گاڑی چلی اور ایک چھوٹی سی جگہ لے گئے جہاں مجھے رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اس لیے اندازہ نہیں ہوا کہ مجھے کس طرف لے کر گئے تھے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک یہ بھی سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون لوگ تھے اور مجھ سے کیا چاہتے تھے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ میں نے پوچھا میرے خلاف کوئی چیز ہے تو بتائیں، کوئی شکایت یا وارنٹ گرفتاری ہے تو میں خود پیش ہوجاتا ہوں تاہم انہوں نے مجھے کوئی چیز نہیں بتائی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ بار اور میڈیا نے جو کوششیں کیں، اس کی وجہ سے مجھے چھوڑا گیا۔