اپنا ہاتھ کاٹ کر خود کو بچانے والے شخص کی رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان
کیا کوئی فرد زندگی بچانے کے لیے اپنا ہاتھ کاٹنے کی ہمت کرسکتا ہے؟
ایسا امریکا سے تعلق رکھنے والے ایرون رالسٹن نے اس وقت کیا جب ان کی زندگی لگ بھگ ختم ہونے کے قریب پہنچ گئی تھی۔
جی ہاں واقعی اپریل 2003 میں امریکی ریاست یوٹاہ کے کینن لینڈ نیشنل پارک میں پہاڑیوں پر چڑھنے کے دوران ایک حادثے میں ایرون کا دایاں ہاتھ بھاری پتھروں میں پھنس گیا تھا۔
وہ اس وقت ایک تنگ درے پر چڑھ رہے تھے اور ایک بھاری پتھر ان کے دائیں ہاتھ پر گر گیا اور وہ ایک چٹان پر پھنس گئے۔
مزید پڑھیں : وہ خاتون جو ہر 24 گھنٹے بعد 26 سال پہلے کے 'عہد' میں پہنچ جاتی ہے
اس وقت ان کے پاس محض ایک لیٹر پانی، چند چاکلیٹ کے ٹکڑے اور تھوڑا سا کھانا تھا۔
ان کے پاس ہیڈفونز اور ایک ویڈیو کیمرا بھی تھا مگر موبائل فون نہیں تھا اور ہوتا بھی تو وہاں موبائل کوریج موجود نہیں تھی اور سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ تھی کہ انہوں نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہاں کہاں جارہے ہیں۔
امریکی ریاست کولوراڈو کے رہائشی بولڈر کی زندگی کی بقا کے لیے کی جانے والے اس حیرت انگیز جدوجہد پر ایک مقبول فلم بھی بنی تھی۔
ڈائریکٹر ڈینی بوائل نے اس فلم '127 آرز' کو ڈائریکٹ کیا تھا۔
اگر تو آپ نے اس فلم کو دیکھا ہے تو یقیناً ایرون کی کہانی سے بھی بخوبی واقف ہوں گے جس کا مرکزی کردار جیمز فرینکو نے ادا کیا تھا اور بہترین اداکار سمیت بہترین فلم، اسکرین پلے سمیت 6 آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا، تاہم کسی میں کامیابی نہیں ملی۔
تو اصل میں ہوا کیا تھا؟
اب اس حادثے کو اپریل میں 18 سال ہوجائیں گے مگر اب تک یہ لوگوں کے اندر حوصلہ جگاتا ہے۔
اس واقعے سے ایک سال قبل ایرون رالسٹن نے انٹیل کی ملازمت چھوڑ کر کولوراڈو کی تمام 14 ہزار فٹ سے زیادہ بلند چوٹیوں کو سر کرنے کا فیصلہ کیا۔
2003 میں انہوں نے یوٹاہ کے پہاڑی علاقوں کو سر کرنے کا فیصلہ کیا اور وہاں کے تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے فری کلائمبنگ، جپمس اور رسیوں سے اوپر چڑھنے جیسے طریقوں کی مدد لی۔
مگر ایک بار جب وہ 3 فٹ چوڑے کینن سے اتر رہے تھے تو اس دوران ایک بھاری پتھر اپنی جگہ سے ہل گیا جو ان کے خیال میں مضبوط تھا۔
ان کے بقول 'میں اس خوبصورت جگہ میں گھومتے ہوئے بہت خوش تھا اور لاپروا ہوگیا اور پھر اچانک میں چند فٹ نیچے گرا، جب میں نے اوپر دیکھا تو پتھر آرہا تھا تو خود کو بچانے کے لیے میں نے ہاتھ اوپر اٹھا دیئے اور وہ میرے دائیں ہاتھ سے ٹکرایا اور کچل دیا'۔
ساڑھے 3 سو کلو گرام سے زیادہ وزنی چٹان یا پتھر نے دائیں ہاتھ کا لگ بھگ قیمہ کردیا تھا اور ایرون شاک کی کیفت میں چلے گئے اور پہلے تو انہیں یہ پرمزاح محسوس ہوا۔
یہ بھی پڑھیں : 8 چہروں والا وہ شخص جس نے لاکھوں ذہن گھما کر رکھ دیئے
تاہم پھر تکلیف نے حملہ کیا اور ان کے بقول 'اگر کبھی آپ کی انگلی کسی دروازے میں پس گئی ہو تو اس وقت ہونے والی تکلیف کو سو گنا بڑھا دیں، جس کا تجربہ مجھے ہوا'۔
45 منٹ تک وہ تکلیف اور غصے سے چیختے چلاتے اور گالیاں دیتے رہے اور پر انہیں احساس ہوا کہ پانی ہی واحد چیز ہے جو ان کو زندہ رکھ سکتی ہے۔
چونکہ انہوں نے کسی کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں تو انہیں علم تھا کہ کوئی ڈھونڈنے بھی نہیں آئے گا۔
ایرون کے بقول 'میں نے پانی کی بوتل کو بند کیا اور خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کی، مجھے وہاں سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈنا ہی تھا'۔
انہوں نے خودکشی کے آپشن کو مترد کردیا تھا مگر اس کے ساتھ ہی اتنا ہی خوفناک متبادل بھی فوری طور پر ان کے ذہن میں آیا کہ اپنا ہاتھ کاٹ دیں۔
انہوں نے بتایا 'میں نے خود سے پوچھا ایرون کیا تم اپنا ہاتھ کاٹ سکتے ہو؟ میں اپنا ہاتھ کاٹنا نہیں چاہتا، مگر یار تم کو اپنا ہاتھ کاٹنا ہی ہوگا'۔
تو اس وقت وہ حوصلہ نہیں کرسکے اور مسلسل 2 دن تک اپنی جیبی چاقو سے چٹان کو اٹھانے کی کوشش کرتے رہے، پھر ہار مان لی۔
انہوں نے اپنا چاقو ہاتھ پر رکھا اور اس وقت انکشاف ہوا کہ اس کی دھار کند ہوچکی ہے یہاں تک کہ اب اس سے بال بھی کٹ نہیں سکتے۔
انہوں نے سوا کہ وہ چاقو کو آری کی بجائے بغدے کی طرح استعمال کرکے ہاتھ کو کاٹ دالیں، تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
5 ویں دن ایرون نے تسلیم کرلیا تھا کہ وہ مرنے والے ہیں اور یہی جگہ ان کی قبر ہوگی۔
اس وقت جسم کو پانی کی کمی کا سامنا ہوچکا تھا، جبکہ بھوک اور 3 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے نتیجے میں ان کے سامنے واہمے ابھر رہے تھے۔
انہوں نے ایک چھوٹے لڑکے کا دیکھا اور ان کا کہنا تھا 'میں نے خود کو دیکھا تھا جو اس بچے کے ساتھ کھیل رہا تھا، میرا دایاں ہاتھ نہیں تھا، وہ مجھ سے کہتا ہے کہ ڈیڈی کیا اب ہم کھیل سکتے ہیں، اس کی شکل مجھے بتارہی ھتی کہ وہ میرا بیٹا ہے اور یہ میرا مستقبل ہے، تو مجھے یقین ہوگیا کہ مشکل ختم ہونے والی ہے'۔
اگلی صبح اشتعال اور مستقبل کی جھلک کے بعد خود چٹان سے ٹکرا گئے تاکہ ہڈیاں ٹوٹ جائیں اور اس کے بعد کام آسان ہوگیا۔
اس وقت آواز تو خوفناک آئی مگر ان کو خوشہ ہوئی کیونکہ وہ ذہنی طور پر ہاتھ کو الوداع کہنے کے لیے تیار تھے۔
ان کے بقول 'یہ تمہیں مارنے والا ہے، اس سے نجات حاصل کرلوں ایرون، یہ اب میرا ہاتھ نہیں رہا، جب میں نے چاقو اٹھایا تو ذۃنی طور پر تیار تھا، گوشت کو ہاتھ سے الگ کرنے میں ایک گھنٹہ لگا، جو بہت تکلیف دہ تھا مگر میں اندر سے خوشی بھی محسوس کررہا تھا'۔
ہاتھ الگ کرنے کے بعد انہوں نے تخمینہ لگایا تھا کہ طبی امداد کے حصول میں کم از کم 10 گھنٹے لگ سکتے ہیں اور جریان خون سے موت واقع ہوسکتی ہے، تاہم کلائمبنگ کٹ کے ٹکڑوں کو انہوں نے اپنے ارگرد لپیٹا، اور کسی طرح 65 فٹ کی پیاڑی پر چڑھنے میں کامیاب ہوکر اس جگہ سے باہر نکل آئے۔
خوش قسمتی سے وہاں 3 ڈچ سیاح موجود تھے، جس سے ان کو پانی ملا اور طبی امداد کے حصول کوو ممکن بنایا۔
زندگی بچانے کے اس تجربے پر انہوں نے کتاب بھی تحریر کی جو بہت زیاہد مقبول ہوئی اور بعد میں اسی پر فلم بھی بنی۔
ایرون کے مطابق اس سبق سے مجھے زمدگی میں لچک کی اہمیت کا احساس ہوا، یہ صرف مضبوطی کی ورزش نہیں، بلکہ اس سے ذہن کشادہ ہوتا ہے اور احساس دلاتا ہے کہ مشکل وقت میں منطق ہمیشہ کام نہیں آتی، بلکہ کچھ ہٹ کر کرنا ہوتا ہے، ہڈیوں کو عجیب طریقے سے توڑنا واقعی مشکل ہے مگر یہ میرے اندر کی آواز بن گئی تھی کہ اپنی ہڈیاں توڑنی ہیں'۔
اب وہ کیا کرتے ہیں؟
اب ایرون ماضی کے مقابلے میں بالکل مختلف ہیں اور خود انحصار کی بجائے انہوں نے دیگر پر بھروسا کرنا سیکھ لیا، خاندان اور دوستوں سے محبت اور تعلق نے انہیں زندہ رہنا سیکھایا۔
یہ بھی دیکھیں : 18 سال تک ایئرپورٹ پر پھنسا رہنے والا مسافر
انہوں نے اس سارے حادثے کو کیمرے میں محفوظ کیا تھا جیسا فلم میں بھی دکھایا گیا تھا، مگر ایرون نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ عوام کے سامنے اپنی ویڈیو کو شو نہیں کریں گے۔
تاہم فلم میں اس ویڈیو کے مختلف حصوں کی ہو بہو نقل کی گئی تھی۔
اس حادثے کے بعد انہوں نے موٹیویشنل اسپیکر کے شعبے مین کیرئیر بنایا، تاکہ دوسرے افراد کو سیکھا سکیں انہوں نے کیسی غلطیاں کیں اور کس طرح مشکلات پر فتح حاصل کی۔