کرک: ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، جے یو آئی (ف) رہنما سمیت 31 افراد گرفتار
کرک: پولیس نے جمعرات کے روز یہاں ضلع کرک کے علاقے تیری میں ایک ہندو بزرگ کی سمادھی (مزار) میں توڑ پھوڑ اور اسے مسمار کرنے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ضلعی رہنماؤں سمیت 31 افراد کو گرفتار کر لیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس حکام نے ڈان کو بتایا کہ گرفتار افراد میں جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما رحمت سلام خٹک بھی شامل ہیں، انہیں تحصیل تخت نشری کے علاقے چوکڑہ میں واقع اپنی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا تھا، انہوں نے جے یو آئی (ف) میں شمولیت سے قبل مسلم لیگ (ن) کے صوبائی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: مشتعل ہجوم کی ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، نذرآتش کردیا
عہدیداروں نے بتایا کہ انہوں نے مزار پر حملے میں ملوث لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے، تاہم مزار کو نقصان پہنچانے میں ملوث کئی افراد گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہو گئے ہیں۔
تیری پولیس نے عبادت گاہ کو نقصان، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، ڈکیتی، آتش زنی، بدعنوانی اور حملہ کرنے کے الزام میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی، ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 بھی شامل ہے۔
ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ایک احتجاج کے دوران مولانا محمد شریف نے اجتماع کو مزار کے بارے میں آگاہ کیا اور کہا کہ وہ نہ تو تیری کی سرزمین پر کسی ہندو مزار اور نہ ہی کسی ہندو کو دورے کی اجازت دیں گے۔
اس میں کہا گیا کہ انہوں نے ایک سے ڈیڑھ ہزار شرکا سے تقریر کے دوران کہا کہ وہ اس مزار کو ختم کردیں۔
ایف آئی آر کے مطابق عالم نے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی مزار کو گرانے کے دوران مرتا ہے وہ شہید ہو گا۔
اس میں کہا گیا کہ مولانا محمد شریف کی سربراہی میں لگ بھگ 400 افراد نے مزار پر حملہ کیا اور اسے آگ لگا دی۔
اس میں کہا گیا کہ حملہ آوروں نے پولیس پر بھی فائرنگ کردی، اس میں مزید کہا گیا کہ ہجوم میں شامل افراد مزار سے مورتیاں آثار بھی ساتھ لے گئے۔
صوبائی پولیس سربراہ ڈاکٹر ثنااللہ عباسی نے بھی ہندوؤں کے مزار کا دورہ کیا، انہوں نے کہا کہ تحقیقات جاری ہیں اور اس معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے، انہوں نے بتایا کہ 31 ملزمان کو مزار پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جبکہ ایف آئی آر میں 350 افراد کو نامزد کیا گیا تھا اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ایک مقامی بزرگ اسحٰق خٹک نے ڈان کو بتایا کہ تیری میں صورتحال پُرسکون ہے اور زیادہ تر مقامی افراد اس واقعے سے دور رہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تیری بازار بھی بدستور بند رہا۔
دریں اثنا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ضلعی دھڑے نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس کو ہندو مزار پر حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے عملی اقدامات کرنا چاہئیں۔
یہ بھی پڑھیں: ہندو سمادھی کو نذرآتش کرنے کا معاملہ: چیف جسٹس کا نوٹس، 14 افراد گرفتار
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ضلعی جنرل سیکریٹری کامران اور سینئر نائب صدر عاشق منیر نے کہا کہ یہ چند افراد کا عمل ہے اور اسے پورے خٹک قبیلے سے منسوب نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے کے دوران پولیس نے مجرمانہ غفلت برتی ہے اور ضلعی انتظامیہ اس واقعے کی روک تھام کے لیے بروقت اقدامات کرنے میں ناکام رہی۔
انہوں نے وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ حملے کو روکنے میں ناکامی پر ڈپٹی کمشنر، ضلعی پولیس آفیسر اور تحصیل کے ڈی ایس پی بندہ داؤد شاہ اور دیگر ذمہ دار انتظامی افسران کو معطل کریں۔
پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اس واقعے کی مذمت کی اور اسے پختون خطے میں تشدد کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش قرار دیا۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے جنہوں نے ہجوم کو مزار پر حملہ کرنے پر اکسایا، انہوں نے کہا کہ حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ غیر مسلم سمیت تمام شہریوں اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔
مزید پڑھیں: غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، وزیرمذہبی امور
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے وزیرستان میں گھروں کو نذر آتش کرنے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کے واقعات سے پختون پٹی میں تشدد میں اضافہ ہوگا، انہوں نے کہا کہ پختون امن پسند لوگ ہیں جنہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ کردار ادا کیا۔
کوہاٹ میں اقلیتی رہنماؤں نے کرک میں ہندوؤں کے مزار پر توڑ پھوڑ کی مذمت کی اور کہا کہ بھارت اس واقعے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے گا، سابق ضلعی کونسلر مبشر ناز نے ایک بیان میں کہا کہ اتنے بڑے واقعے سے جڑی بدنامی کو دور نہیں کیا جا سکتا۔
ایڈووکیٹ روہت کمار نے کہا کہ اس واقعے سے سندھ میں بسنے والے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔