پشاور ہائی کورٹ نے دو مبینہ عسکریت پسندوں کی سزا ختم کردی
پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے دھماکا خیز مواد اور اسلحہ رکھنے کے کیس میں انسداد دہشت گردی عدالت سے سزا یافتہ دو مبینہ عسکریت پسندوں کو بری کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس سید محمد عتیق شاہ پر مشتمل ہائی کورٹ کے بینچ نے باجوڑ قبائلی ضلع کے رہائشیوں اجمل اور سجاد کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ دیا کہ استغاثہ ان کے خلاف اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اپیل کنندگان کو 5 مارچ 2020 کو مردان کی انسداد دہشت گردی عدالت نے مجرم قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ میں سینیٹ چیئرمین کو کام سے روکنے کی درخواست
انہیں مختلف دفعات کے تحت 30 سال قید کی سخت سزا سنائی گئی تھی۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے دعوٰی کیا تھا کہ ان دونوں اپیل کنندگان کو گزشتہ سال یہ اطلاع ملنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے چند ارکان سرکاری دفاتر کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
یہ الزام لگایا گیا تھا کہ ایک چھاپے کے دوران سی ٹی ڈی اہلکاروں نے بھاری مقدار میں دھماکا خیز مواد، ڈیٹونیٹرز اور سیفٹی فیوز، دستی بم اور پستول برآمد کیے تھے۔
یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اپیل کرنے والوں کے پاس اہم سرکاری عمارتوں کے نقشے بھی موجود ہیں۔
اس واقعے کی ایف آئی آر مردان سی ٹی ڈی تھانے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7، اسلحہ ایکٹ کی دفعہ 15 اور دھماکا خیز سبسٹینس ایکٹ کی دفعہ 5 کے تحت درج کی گئی تھی۔
اپیل کنندگان کے وکیل شبیر حسین گیگیانی نے عدالت میں استدلال کیا کہ ان کے مؤکلوں پر فرضی کیس میں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور مبینہ واقعہ ہونے سے قبل ہی انہیں تحویل میں لے لیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ کا ڈاکٹروں کے خلاف درج ایف آئی آر ختم کرنے کا حکم
انہوں نے کہا کہ انہیں کئی ہفتوں تک غیر قانونی قید میں رکھنے کے بعد اچانک اس مقدمے میں ان پر فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ استغاثہ نے مقدمے کی ملکیت پیش نہیں کی اور بہانا کیا کہ اس کو تباہ کردیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانون کے تحت برآمد شدہ بارودی مواد کو تباہ نہیں کیا جانا چاہیے اور اسے رجسٹرڈ اداروں کو فروخت کرنا چاہیے۔
وکیل نے کہا کہ اس وقت استغاثہ کے پاس کوئی ثبوت پیش کرنے کے لیے نہیں ہے کہ اپیل کنندگان سے دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔