ہندو سمادھی کو نذرآتش کرنے کا معاملہ: چیف جسٹس کا نوٹس، 14 افراد گرفتار
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کرک میں ہجوم کے ہاتھوں ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ اور نذرآتش کرنے کا نوٹس لے لیا، وہیں دوسری جانب پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔
سپریم کورٹ پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد سے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن ان چیف ڈاکٹر رمیش کمار نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ملاقات کی۔
ملاقات کے دوران کرک میں ’ہجوم کی جانب سے ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی (مزار) کی بے حرمتی/نذرآتش کرنے سے متعلق معاملے پر تبادلہ خیال ہوا‘۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا: مشتعل ہجوم کی ہندو بزرگ کی سمادھی میں توڑ پھوڑ، نذرآتش کردیا
اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس پاکستان نے اس واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور رکن قومی اسمبلی کو بتایا کہ انہوں نے پہلے ہی اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور منگل 5 جنوری 2021 کو اسلام آباد میں اس کی سماعت مقرر کردی ہے۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ معاملے کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ اقلیتی حقوق کے ایک رکنی کمیشن، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور آئی جی خیبرپختونخوا کو ہدایات کی ہیں کہ وہ مذکورہ مقام کا دورہ کریں اور 4 جنوری 2021 تک اپنی رپورٹ جمع کرائیں۔
ادھر کراچی رجسٹری کے باہر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے احتجاج کیا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایسے عناصر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایک ہجوم نے کرک کے علاقے ٹیری میں ایک ہندو بزرگ کی سمادھی کو نذرآتش کردیا تھا جبکہ اس کے کچھ حصوں کو منہدم بھی کیا تھا۔
14 افراد گرفتار
دوسری جانب امریکی خبررساں ادارے اے پی نے رپورٹ کیا کہ حکام کا کہنا تھا کہ ہندو بزرگ کی سمادھی کو نذرآتش کرنے کے واقعے کے بعد پولیس نے رات گئے 14 افراد کو گرفتار کرلیا۔
مقامی پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے رات گئے 14 افراد کو حراست میں لیا اور سمادھی کو نقصان پہنچانے میں ملوث افراد یا ہجوم کو مشتعل کرنے والوں کی گرفتاری کے لیے مزید چھاپے مارے جارہے ہیں۔
سمادھی کو نقصان پہنچانے کا واقعہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے ہندو برادری کے اراکین کو مذکورہ جگہ کی تزئین و آرائش کی اجازت ملنے کے بعد پیش آیا۔
ادھر وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں مندر کو نقصان پہنچانے کی کوشش، پاکستان کے مذہبی ہم آہنگی کے خلاف سازش اور ناقابل برداشت ہے‘۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ ’اس طرح کے رویے دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کے خلاف ہیں، اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ ہماری دینی، آئینی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے‘۔
قبل ازیں پولیس اور مقامی لوگوں نے بتایا تھا کہ سمادھی پر حملے سے قبل ٹیری کے شنکی اڈہ کے مقام پر مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس بھی ہوا تھا۔
عینی شاہدین نے بتایا تھا کہ ہجوم کی قیادت ایک مذہبی جماعت کے حمایتوں اور مذہبی رہنماؤں کی جانب سے کی جارہی تھی۔
مشتعل ہجوم کے افراد یہ نعرے لگا رہے تھے کہ وہ علاقے میں کسی مزار کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے۔
خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کو ہندو کمیونٹی کی جانب سے مقدس سمجھا جاتا ہے اور ہندو مذہب کو ماننے والے خاص طور پر سندھ سے لوگ یہاں آتے تھے۔
علاوہ ازیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے پولیس کو سمادھی کو نقصان پہنچانے والوں کو گرفتار کرنے کی ہدایت کردی تھی۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر عرفان اللہ نے ڈان کو بتایا تھا کہ 2 مذہبی رہنما مولانا محمد شریف اور مولانا فیض اللہ سمیت متعدد نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: ہندو اور عیسائی برادری کے قبرستانوں کیلئے جگہ فراہم کرنے کا حکم
ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں مظاہرین پر امن تھے لیکن کچھ رہنماؤں کی جانب سے اکسانے پر وہ مشتعل ہوئے اور سمادھی پر حملہ کردیا۔
تاہم مقامی علما کا کہنا تھا کہ ہندو برادری نے مزار کی توسیع کا ٹھیکا ایک مقامی ٹھیکے دار کو دیا تھا جو لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔
خیال رہے کہ شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کے معاملے پر دہائیوں قبل تنازع شروع ہوا تھا، 1997 میں اس جگہ کو مسمار کردیا گیا تھا تاہم 2015 میں سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا حکومت کو ہندو سمادھی کو بحال کرنے اور دوبارہ تعمیر کا حکم دیا تھا۔