آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ منظور
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے گرفتار رہنما خواجہ آصف کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرلیا۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف کو جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سہیل عارف نے عدالت میں پیش ہو کر راہداری ریمانڈ کی استدعا کی جس پر جج نے استفسار کیا کہ ملزم کو کہاں پیش کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: نیب نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو گرفتار کرلیا
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ گرفتار ملزم کو لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا جانا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر کی بات پر خواجہ آصف کی پیروی کرنے والے وکیل جہانگیر خان جدون نے مؤقف اپنایا کہ میں تو کہتا ہوں ملزم کو رہا کیا جائے کیوں کہ یہ کیس نہیں بنتا، 2018 میں انکوائری نیب راولپنڈی میں شروع ہوئی تھی جسے 2 سال قبل ہی بند کردیا تھا ، بنیادی طور پر یہ آپ (کی عدالت) کا کیس بنتا ہے اور آپ کے پاس رہا کرنے کا اختیار ہے۔
وکیل صفائی نے یہ بھی کہا کہ ان کے مؤکل کے وارنٹ اور گراونڈ آف اریسٹ فراہم نہیں کیا گیا، جس پر عدالت نے یہ دونوں چیزیں فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔
بعدازاں احتساب عدالت نے خواجہ آصف کا ایک روزہ راہدای ریمانڈ منظور کرلیا جس پر نیب کی ٹیم انہیں لے کر لاہور روانہ ہوگئی۔
2 ڈھائی سال سے پارٹی توڑنے کی کوششیں جاری ہیں، خواجہ آصف
دوسری جانب سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب اور سینیٹر محسن شاہنواز رانجھا کو احتساب عدالت میں داخلے کی اجازت دی گئی جبکہ اس دوران انہوں نے گرفتار رہنما سے ملاقات بھی کی۔
مزید پڑھیں: نیب نے خواجہ آصف کو 26 جون کو طلب کرلیا
عدالت میں پیشی کے موقع پر خواجہ آصف کے ایک بیان کے حوالے سے صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کو کس نے کہا تھا کہ نوازشریف کو چھوڑ دیں، کیسز ختم ہوجائیں گے۔
جس پر خواجہ آصف نے کہا کہ جب سے ’میاں صاحب کو نااہل کیا گیا ہم سب کو گزشتہ 2، ڈھائی سال سے یہی کہا جارہا ہے‘۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ 2، ڈھائی سال سے پارٹی کو توڑنے اور نواز شریف کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
خواجہ آصف گرفتاری
خیال رہے کہ خواجہ آصف کو 29دسمبر 2020 کو اسلام آباد سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ احسن اقبال کی رہائش گاہ پر ہونے والے ایک پارٹی اجلاس میں شرکت سے واپس آرہے تھے۔
بعد ازاں ایک بیان جاری کرتے ہوئے نیب نے خواجہ آصف کی تفصیلی چارج شیٹ فراہم کی تھی، جس کے مطابق وہ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 4 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت رہنما مسلم لیگ (ن) کے خلاف تفتیش کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل: خواجہ آصف کی اہلیہ اور بیٹے کے خلاف مقدمہ
نیب لاہور کے مطابق ملزم خواجہ آصف نے 1991 میں بطور سینیٹر عہدہ سنبھالا جو بعد ازاں مختلف ادوار میں وفاقی وزیر اور ایم این اے بھی رہے۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے سے قبل 1991 میں خواجہ آصف کے مجموعی اثاثہ خات 51 لاکھ روپے پر مشتمل تھے تاہم 2018 تک مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ان کے اثاثہ جات 22 کروڑ 10 لاکھ روپے تک پہنچ گئے جو ان کی ظاہری آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے یو اے ای کی ایک فرم بنام M/S IMECO میں ملازمت سے 13 کروڑ روپے حاصل کرنے کا دعوی کیا تاہم دوران تفتیش وہ بطور تنخواہ اس رقم کے حصول کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے۔
نیب لاہور کے مطابق اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے جعلی ذرائع آمدن سے اپنی حاصل شدہ رقم کو ثابت کرنا چاہا۔
احتساب کے ادارے کے مطابق ملزم خواجہ آصف اپنے ملازم طارق میر کے نام پر ایک بے نامی کمپنی بنام ’طارق میر اینڈ کمپنی‘ بھی چلا رہے ہیں جس کے بینک اکاؤنٹ میں 40 کروڑ کی خطیر رقم جمع کروائی گئی، اگرچہ اس رقم کے کوئی خاطر خواہ ذرائع بھی ثابت نہیں کیے گئے۔
نیب نے کہا کہ نیب انکوائری کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا خواجہ آصف کی ظاہر کردہ بیرونی آمدن آیا درست ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ انکوائری میں ظاہر ہوا کہ مبینہ بیرون ملک ملازمت کے دورانیہ میں ملزم خواجہ آصف پاکستان میں ہی تھے جبکہ بیرون ملک ملازمت کے کاغذات محض جعلی ذرائع آمدن بتانے کے لیے ہی ظاہر کیے گئے۔