کووڈ 19 سے متاثر افراد میں مدافعتی ردعمل کئی ماہ تک رہتا ہے، تحقیق
ماہرین نے ایسے شواہد دریافت کیے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے یا بغیر علامات والے مریضوں میں اس بیماری کے خلاف مدافعت کئی ماہ تک برقرار رہتی ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
امپرئیل کالج لندن، لندن کالج یونیورسٹی اور کوئین میری یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 136 ہیلتھ ورکرز کا جائزہ لیا گیا جن مین کووڈ کی تشخیص ہوئی تھی اور بیماری کی شدت معمولی تھی یا علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔
طبی جریدے جرنل سائنس امیونولوجی میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 89 فیصد افراد میں بیماری کے 16 سے 18 ہفتوں بعد بھی کورونا وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔
اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بیشتر مریضوں میں ایسے ٹی سیلز بھی موجود تھے جو وائرس کے متعدد مختلف حصوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تاہم انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کچھ افراد میں ٹی سیلز امیونٹی تو تھی مگر اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، جبکہ کچھ میں اس کا الٹ دیکھنے میں آیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ طبی ورکرز میں کووڈ 19 کے حوالے سے ہماری تحقیق میں انکشاف ہوا کہ بیماری کے 4 ماہ بعد بھی 90 فیصد افراد میں وائرس کو بلاک کرنے والی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ حوصلہ افزا پہلو یہ تھا کہ 66 فیصد افراد میں تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی شرح کافی زیادہ تھی اور اس کے ساتھ ٹی سیلز بھی تھے جو وائرس کے مختلف حصوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔
محققین نے اسے اچھی خبر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی کورونا وائرس سے متاثر ہوتا ہے، تو قوی امکان ہے کہ اس کے اندر اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز جیسے تحفظ فراہم کرنے والے عناصر بھی بن جائیں گے، جو ممکنہ طور پر اگلی بار وائرس کا سامنا ہونے پر تحفظ فراہم کریں گے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگرچہ تحفظ فراہم کرنے والا اینٹی باڈی ردعمل عموماً ٹی سیلز کے ردعمل پر حرکت میں آتا ہے، مگر 50 فیصد سے زائد مریضوں میں مختلف اینٹی باڈی اور ٹی سیل ردعمل دیکھنے میں آیا۔
تحقیق کے مطابق ان ورکرز میں ایسا ٹی سیل ردعمل پیدا نہیں ہوسکا جو نئے کورونا وائرس کی اوپری تہہ میں پائے جانے والے مخصوص پروٹینز کے خلاف کام کرتا ہو۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کہ ٹی سیلز کا ردعمل ان افراد میں زیادہ بہتر تھا جن میں کووڈ 19 کی علامات سامنے آئی ہوں، جبکہ بغیر علامات والے مریضوں میں کمزور ٹی سیل مدافعت دیکھنے میں آئی، مگر ان میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈی کی سطح علامات والے مریضوں جیسی ہی تھی۔
تحقیق سے یہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ کورونا وائرس سے معمولی حد تک متاثر ہونے والے افراد میں بھی اس کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔
محققین نے کہا کہ اگرچہ کورونا کی نئی اقسام ابھر رہی ہیں، مگر وائرس میں آنے والی تبدیلیاں ضروری نہیں کہ اس کے اندرونی افعال میں بھی آئی ہوں، تو توقع ہے کہ بیشتر افراد کا مدافعتی نظام اس بیماری کے خلاف متحرک رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ معمولی حد تک بیمار یا بغیر علامات والے مریضوں میں طویل المعیاد مدافعتی ردعمل سے یہ توقع بھی پیدا ہوتی ہے کہ ویکسینز سے لوگوں کو زیادہ عرصے تک بیماری سے تحفظ مل سکے گا۔