دسمبری شاعری
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے۔ اس ماہ 2 کام بڑی تن دہی سے کیے جاتے ہیں۔ پہلا اس برہمن کی تلاش جس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے اور دوسرا کام روتی دھوتی شاعری۔
چلیے بات شاعری تک رہتی تو بھی ٹھیک تھا، لیکن بعض حضرات سوشل میڈیا پر لوگوں کو یہ اجتماعی ذمے داری سونپ دیتے ہیں کہ ‘اسے کہنا دسمبر آگیا ہے’۔
وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ کسے کہنا؟ وہ کون ہے جسے یہ بھی نہیں پتا کہ دسمبر آگیا ہے؟ کیا کوئی مقروض ہے جس نے قرض لیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ ‘بس یہ دسمبر آیا اور یہ تیرا بھائی تیرے پیسے لوٹانے تیرے دروازے پر’ یا وہ محبوبہ، جو اب کسی کروڑ پتی کی پتنی ہے، سو اسے پتا چلتا ہے نہ غرض ہوتی ہے کہ کب پہلی تاریخ آئی اور نیا مہینہ شروع ہوگیا۔ وہ شوہر سے ہر سوال کرتی ہے بجز ‘تنخواہ کب تک آئے گی؟’۔
ہم اپنی ہم درد اور رضاکارانہ فطرت کے باعث ‘اسے کہنا دسمبر آگیا ہے’ کا فریضہ ادا کرنے کے لیے دل و جان سے تیار رہتے ہیں، اور کہنے والے سے پوچھتے بھی رہتے ہیں کہ بھیا! کسے کہنا ہے؟ نام پتا بتاؤ، ہم خود جاکر اطلاع دیں گے کہ بی بی! ایک راز کی بات بتاویں۔ وہ کہے گی ‘بکو’ ہم سرگوشی میں اطلاع دیں گے، اس نے کہا ہے، دسمبر آگیا ہے، اسی لیے سردی بڑھ گئی ہے اور تم کپکپا رہی ہو۔ اب کرو یہ کہ بکسوں سے لحاف نکالو، الماریاں کھنگال کر سوئٹر برآمد کرو، کافی پیو، مونگ پھلی کھاؤ، گاجر کا حلوہ بناؤ، اور گرم پانی سے نہایا کرو’۔ یقیناً یہ سنتے ہی وہ اچھل پڑے گی اور ساتھ ہی لڑ پڑے گی کہ ’اس سے کہنا، دسمبر کب آیا، پہلے کیوں نہیں بتایا، اب چلا جائے تو وقت پر بتا دینا’۔
مزید پڑھیے: پاکستانیوں کی ‘حُبِ حیوان’
ہم سوچتے ہیں کہ اس بے خبر کو صرف دسمبر آنے ہی کا کیوں بتانا ہوتا ہے، اسے جنوری سے نومبر تک کے مہینوں کے آنے کی اطلاع کیوں نہیں دی جاتی؟ مثلاً اسے کہنا جون آگیا ہے ہیٹر کی جان چھوڑ دے، بجٹ آنے والا ہے دل تھام لے۔ اسے کہنا جولائی آگیا ہے اب تو شوہر کی جیب سے لان کے نئے جوڑوں کے لیے پیسے نکلوا ہی لے۔ یہ پیغام اسلامی مہینوں سے متعلق بھی بھجوائے جاسکتے ہیں، جیسے اسے کہنا رمضان شروع ہوگیا ہے، اب میں احمد فراز کے نہیں علامہ اقبال کے اشعار واٹس اپ کیا کروں گا، ‘تم بدل گئے ہو’ والا شک نہ کرے۔ اسے کہنا ذوالحج شروع ہوگیا ہے، بقرعید آنے والی ہے، بغدے چھریوں کو دھار لگوالے۔
یہ معاملہ ‘اسے کہنا’ تک محدود نہیں، خود سے اور دوسروں سے بھی بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ ایک شاعر صاحب فرماتے ہیں:
بہت سے غم دسمبر میں دسمبر کے نہیں ہوتے
اسے بھی جون کا غم تھا، مگر رویا دسمبر میں
بھئی جون کا غم جون ہی میں رولیتے، دسمبر میں نحوست پھیلانے کی کیا ضرورت تھی۔ ممکن ہے جس طرح بعض لوگ لطیفے دیر میں سمجھتے ہیں ‘اسے’ غم دیر میں سمجھ میں آیا ہو، اور دسمبر آتے ہی وہ ‘لو بھائی، یہ کیا ہوا’ سوچ کر چونک اٹھا ہو۔ قیاس کہتا ہے کہ جون میں اس کا لحاف چوری ہوگیا تھا، اس وقت تو وہ بے فکری سے ‘او کوئی نئیں’ کہہ کر مطمئن ہوگیا، لیکن دسمبر آتے ہی لحاف یاد کرتے ہی روپڑا۔
جس طرح موسمی بخار ہوجاتا ہے، اسی طرح بعض حضرات کو ‘دسمبری شاعری’ ہونے لگتی ہے، جس میں دسمبر ہی ہوتا ہے، شاعری کہیں نہیں ہوتی، انہیں بس دسمبر کے دُکھڑے بیان کرنے ہوتے ہیں شاعری کے قواعد جائیں بھاڑ میں۔ ایسے ہی ایک صاحب ہدایت جاری کرتے ہیں:
اک بار تو ملنے آؤ کہ دسمبر آنے والا ہے
کیسا گزرا یہ سال بتانے آؤ دسمبر آنے والا ہے
اس ‘شعر’ سے پتا چلتا ہے کہ شاعر بہت مصروف ہے، اس کے پاس ملنے جانے کا وقت نہیں، اس لیے محبوب سے کہہ رہا ہے ‘تم تو فارغ ہو، تمہارے پاس بہت ٹائم ہوگا، اس لیے تم ہی آجاؤ’۔
شاعر کی مصروفیت کا یہ عالم ہے کہ اسے اخبارات میں بیتے سال کا احوال پڑھنے کی بھی فرصت نہیں، وہ یہ ذمے داری محبوب کو سونپ رہا ہے کہ ایک تو آؤ، دوسرے آتے ہی یہ بھی بتاؤ کہ سال کیسا گزرا۔ شاعر محبوب کو جنوری سے نومبر تک کسی مہینے بھی بلاسکتا تھا، لیکن جب اسے کام پڑا تو محبوب کو بلالیا۔ ہمارے خیال میں شاعر پیشے کے اعتبار سے صحافی ہے، اور اسے سال بھر کے واقعات لکھنے کا فریضہ تفویض کیا گیا ہے۔ اب اس نے سوچا کون مغزماری کرے، اپنا ‘دوست’ روز اخبار پڑھتا ہے، اسے بلا کر پورے برس کی تفصیل معلوم کرلیتا ہوں۔
ایک اور شاعر کی سُنیے:
میں کیسے سرد ہاتھوں سے تمہارے گال چھوتا تھا
دسمبر میں تمہیں میری شرارت یاد آئے گی
عموماً سرما میں سرد ہاتھوں سے چھونے کی حرکت برتن دھونے کے بعد بیویاں کرتی ہیں۔ خیر، شعر سے معلوم ہوا کہ شاعر شریر بھی ہے، مگر ہے بہت شریف کہ گال چھونے پر اکتفا کرتا تھا۔ محبوبہ کو یہ حرکت بطور شرارت یاد آئے نہ آئے بطور شرافت ضرور یاد آئے گی۔ شعر یہ حقیقت بھی عیاں کرتا ہے کہ شاعر صرف گال چھوتا تھا، وہ بھی محض شرارتاً اور وہ بھی بس دسمبر میں۔ باقی کے گیارہ مہینے وہ دسمبر آنے کا انتظار کرتا تھا۔
ایک اور شعر ملاحظہ کیجیے:
دسمبر کی شبِ آخر نہ پوچھو کس طرح گزری
یہی لگتا تھا ہر دم وہ ہمیں کچھ پھول بھیجے گا
پھول شاعر بھی بھیج سکتا تھا لیکن لگتا ہے غربت یا کنجوسی آڑے آگئی۔ حیرت ہے کہ اس مہنگائی میں شاعر کو کیوں توقع تھی کہ ‘وہ’ پھول خریدے گا اور بھیجے گا۔
ہمارے قیاس کے مطابق شاعر غریب ہے تو اسے آرزو ہونی چاہیے تھی کہ ٹھٹھرتے دسمبر میں محبوب لحاف بھیجے گا، رضائی بھیجے گا، اپنے ابّا کی اترن کوٹ یا سوئٹر بھیجے گا، آخر محبوب دسمبر میں پھول کیوں بھیجے؟ اگر شاعر کو سالِ نو پر گلدستہ آنے کا انتظار تھا تو یکم جنوری کی رات تک منتظر رہتا پھر شعر کہتا، اور دسمبر کی آخری شب انتظار میں ضائع کرنے کے بجائے ہوائی فائرنگ کرتا، سائلنسر نکال کر سڑکوں پر موٹرسائیکل دوڑاتا پھرتا، دوستوں کے ساتھ ساحل پر جاکر ہلاگُلا کرتا اور پھول سے چہرے دیکھتا۔
ایک صاحب کا غم یہ ہے کہ:
پھر آگیا ہے ایک نیا سال دوستو
اس بار بھی کسی سے دسمبر نہیں رکا
بھئی یہ دسمبر ہے، کوئی ایسی ‘چیز’ نہیں جسے روکا جاسکے کہ پھر کرلیں گے۔ جب جنوری سے نومبر تک کوئی مہینہ نہیں رکا تو دسمبر کون سا پھپھو کا بیٹا ہے جو روکے سے رُک جاتا۔
مزید پڑھیے: اس بار بقرعید یوں منائیں
یہ شاعر سے زیادہ کسی ناقص کارکردگی والی حکومت کی خواہش لگتی ہے، جو چاہتی ہے کہ جب تک کچھ کر نہ دکھائے وقت رک جائے تاکہ نیا سال لگتے لگتے پانچواں سال نہ آئے۔ اگر شاعر چالیسویں سال میں تیس کی دکھائی دینے والی کسی خاتون سے رابطہ کرلیتا تو اسے کم از کم یہ معلوم ہوجاتا کہ جسے روکنا آتا ہے اس نے دس بیس سال پُرانا دسمبر بھی روک رکھا ہے۔
آخر میں ہماری طرف سے بھی ایک ‘دسمبری پیغام’:
اسے کہنا دسمبر آگیا ہے
مگر انکم مری اب تک وہی ہے
سو اب وہ مجھ سے ناامید ہوکر
کسی انور سے چلغوزے منگالے
کسی اختر سے لے لے گرم کپڑے
نیا کمبل اگر درکار ہے تو
کسی اکبر کا بڑھ کر دل چُرالے
تبصرے (5) بند ہیں