کووڈ 19 کی سب سے عام پیچیدگیوں کا انکشاف
کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی اس بیماری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جان لیوا پیچیدگیوں پر متعدد تحقیقی رپورٹس سامنے آئی ہے۔
مگر ان میں سے بیشتر محدود تھیں اور اب اس حوالے سے ایک جامع تحقیق سامنے آئی ہے، جس میں امریکا کے 70 ہزار سے زیادہ کووڈ کیسز کے ذریعے ان پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
طبی جریدے کینیڈین میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل میں شائع تحقیق میں کووڈ 19 کی تمام ممکنہ پیچیدگیوں کا تعین کیا گیا۔
محققین کا مقصد وبا کے دوران رپورٹ کی جانے والی پیچیدگیوں کی تصدیق کرنا تھا، یعنی طبی مسائل کا خطرہ کووڈ کے مریضوں کو سب سے زیادہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں کووڈ 19 سے جڑے تمام تر خطرات کا تخمینہ فراہم کیا گیا ہے، جس سے ہم طبی ماہرین، مریضوں اور پالیسی سازوں کو تمام تر پیچیدگیوں کو سمجھنے میں مدد فراہم کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق میں بفالو یونیورسٹی کے جیکبس اسکول آف میڈیسین اینڈ بائیولوجیکل سائنسز، ٹورنٹو یونیورسٹی اور ہیلتھ وریٹی انکارپورشن کے محققین نے مل کر کام کیا۔
تحقیق کے لیے یکم مارچ سے 30 اپریل 2020 تک کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے 70 ہزار 288 مریضوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا۔
محققین نے ان افراد کے ڈیٹا کو 3 حصوں میں تقسیم کیا، ایک گروپ ایسے مریضوں کا تھا جن کا علاج تو ہوا مگر ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی۔
دوسرا گروپ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے افراد کا تھا جبکہ تیسرا ایسے مریضوں کا تھا جن کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔
70 ہزار 288 میں سے 53.4 فیصد وہ لوگ تھے جو ہسپتال میں زیرعلاج رہے، جن میں آئی سی یو میں داخل ہونے والوں کی تعداد 4.7 تھی۔
باقی 46.6 فیصد پہلے گروپ میں شامل افراد تھے، مجموعی طور پر 55.8 فیصد خواتین تھیں اور اوسط عمر 65 سال تھی۔
امکان اور خطرات
محققین نے بیس لائن پیریڈ (کووڈ کی تشخیص سے 30 سے 120 دن قبل) اور ہزارڈ پیرڈ (تشخیص سے 7 دن قبل سے 30 دن بعد تک) کو تشکیل دیا۔
بیس لائن پیریڈ کو یہ شناخت کرنے کے لیے استعمال کیا گیا کہ مریض کووڈ 19 سے پہلے کسی دائمی بیماری کا شکار تو نہیں تھے۔
ان دونوں پیریڈ کا موازنہ کرنے سے دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے بعد مریض کو کن پیچیدگیوں کے خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے۔
محققین نے تمام تر پہلوؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد کووڈ 19 یا اس کے علاج سے لاحق ہونے والی پیچیدگیوں کے امکانات اور مجموعی خطرات کا تعین کیا۔
سب سے عام پیچیدگیاں
تجزیے میں ماضی کی طبی تحقیقی رپورٹس میں بتائی جانے والی متعدد پیچیدگیوں کی تصدیق کی گئی، جن کو سب سے عام قرار دیا گیا۔
تحقیق کے مطابق درج ذیل پیچیدگیاں کووڈ 19 سے ٹھوس انداز سے منسلک ہوسکتی ہیں:
نظام تنفس کے مسائل ، جیسے نمونیا، اکیوٹ ریسیپریٹری ڈس ٹریس سینڈروم (اے آر ڈی ایس)، اکیوٹ لوئر ریسیپریٹری انفیکشن، ریسیپریٹری فیلیئر، پھیپھڑوں کے پردے میں ہوا کا بھرجانا (pneumothorax)
گردشی نظام کے مسائل، کارڈیک اریسٹ، اکیوٹ مائیو کار ڈائی ٹس (دل کے پٹھوں کا ورم)
ہیماٹولوجک ڈس آرڈرز، جیسے disseminated intravascular coagulation
گردوں کے مسائل، اکیوٹ کڈنی فیلیئر
سونگھنے اور چکھنے کی حسوں کے مسائل
ٹھوس انداز سے منسلک ہونے کا امکان یہ نہیں یہ مسائل عام (یا ہائی رسک) ہیں۔
جو مسائل کووڈ 19 کے مریضوں میں سب سے عام ہوتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
نمونیا۔ یہ مجموعی طور پر 27.6 فیصد مریضوں میں دیکھا گیا اور آئی سی یو میں داخل افراد میں اس کی شرح 81 فیصد تھی
ریسیپریٹری فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 22.6 فیصد مریضوں میں دیکھنے میں آیا اور آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد کو اس کا سامنا ہوا۔
اکیوٹ کڈنی فیلیئر، یہ مجموعی طور پر 11.8 فیصد کیسز جبکہ آئی سی یو میں داخل 50.7 فیصد افراد میں نظر آنے والی پیچیدگی ہے۔
عفونت، یہ 10.4 فیصد مجموعی کیسز میں نظر آنے والی پیچیدگی ہے جبکہ آئی سی یو میں داخل 54.1 فیصد افراد میں اس کی تشخیص ہوئی
یعنی سب سے زیادہ عام پیچیدگیوں میں وائرل نمونیا، ریسیپریٹری فیلیئر، عفونت، گردوں کے مسائل اور اے آر ڈی ایس شامل ہیں۔
حیران کن طور پر اس تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ کووڈ 19 سے فالج کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھ جاتا ہے، جس کا عندیہ ماضی کی تحقیقی رپورٹ میں دیا گیا تھا۔
محققین نے واضح کیا کہ ان کا ڈیٹا اور تجزیہ کسی حد تک محدود ہوسکتا ہے، جیسے کچچھ پیچیدگیاں بذات خود کووڈ 19 کی بجائے اس کے علاج کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہے۔
ان کے مطابق ابھی تحقیق کو ابتدائی طور پر جاری کیا گیا ہے، یعنی اس میں مستقبل قریب میں کچھ تبدیلیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔