پاکستان اگر کووڈ 19 سے نمٹ سکتا ہے تو پولیو سے کیوں نہیں، آئی ایم بی
اسلام آباد: انڈیپنڈنٹ مانیٹری بورڈ (آئی ایم بی) برائے پولیو نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کووڈ 19 سے نمٹ سکتا ہے اور اس کے پھیلاؤ کو دیکھنے کے لیے وسائل کا استعمال کرسکتا ہے تو پھر پولیو کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بورڈ بین الاقوامی عطیات دہندگان اداروں کی بنیاد پر کام کرتا ہے اور ہر 6 ماہ میں ممالک کی کارکردگی پر رپورٹس جاری کرتا ہے۔
آئی ایم بی کے چیئرمین سر لیام ڈونلڈ سن کی زیر صدارت گزشتہ ماہ ہونے والے بورڈ کے 19 ویں آن لائن اجلاس کے بعد جاری کردہ اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا کہ 2016 کے آغاز سے نومبر 2020 کے اس اجلاس تک پولیو کے خاتمے کے عالمی اقدام (جی پی ای آئی) نے پاکستان میں ایک ارب 16 کروڑ ڈالر خرچ کیے۔
دسمبر کے اوائل تک ملک میں ٹائپ ون وائلڈ پولیو وائرس کے 82 کیسز اور ٹائپ ٹو ویکسین ڈرائیوڈ پولیو وائرس (وی ڈی پی) کے 104 کیسز رپورٹ ہوچکے تھے۔
مزید پڑھیں: کورونا پاکستان میں پولیو مہم کے خلاف مزاحمت کو بڑھا سکتا ہے، رپورٹ
مزید یہ کہ پاکستان اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر وی ڈی پی کے پھیلاؤ کو دیگر ممالک کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں پولیو وائرس دونوں ممالک سے باہر کمیونٹیز میں منتقل ہوسکتا ہے کیونکہ ایران میں سیوریج میں پہلے ہی یہ پایا گیا ہے۔
آئی ایم بی کا خیال تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور قومی ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے سربراہ ڈاکٹر رانا صفدر پر دباؤ زیادہ تھا کیونکہ وہ ایک ہی وقت میں کووڈ 19 اور پولیو سے نمٹ رہے تھے۔
واضح رہے کہ نومبر 2012 میں آئی ایم بی نے پاکستان پر سفری پابندیوں کی تجویز دی تھی جس کا اطلاق 5 مئی 2014 سے ہوا تھا، جس کے بعد یہ ہر کسی کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ بیرون ملک جانے لیے ویکسینیڈ ہو۔
ڈان کے پاس دستیاب رپورٹ کے مطابق مارچ 2020 سے آئی ایم بی نے اس حوالے سے متاثر کن باتیں سنی جس میں انسداد پولیو کے اثاثوں کی تشکیل نو کی گئی اور یہ عالمی وبا کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں بہت مدد کر رہی ہے۔
اس میں کہا گیا کہ واقعی بہت سے لوگوں نے کووڈ 19 ’سلور لائننگ‘ کی بات کی اور یہ ٹیموں کے بہتر طریقے سے مشترکہ کام کرنے، بہت سے تنظیمی اور پیشہ ورانہ حدود کو تحلیل کرنے کا حوالہ دیتی ہے، خاص طور پر کووڈ 19 کے لیے پاکستانی حکومت کے ردعمل کو تیزی سے متحرک کرنے پر لوگ پوچھتے ہیں کہ ’اگر پاکستان کووڈ 19 کے لیے یہ کرسکتا ہے تو پولیو کے لیے کیوں نہیں کرسکتا‘۔
معاون خصوصی برائے صحت پر تبصرہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ اپنی نئی ذمہ داریوں کے ساتھ آئی ایم بی کے پہلے اجلاس میں آتے ہی ڈاکٹر فیصل سلطان نے ذاتی اور پیشہ ورانہ دونوں طرح کے عزم کے لیے ایک سخت بیان دیا تھا اور اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ انسداد پولیو پر ملک کی حکومت کو آپ کم نہیں پائیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اس کی کارکردگی کو بڑا بہتر مظاہرہ کیا جائے گا۔
تاہم اس میں کہا گیا کہ دسمبر 2016 کے آخر میں عالمی ادارہ صحت نے رپورٹ دی تھی کہ پاکستان نے ملک کے متاثرہ علاقوں کی کم تعداد سے سالانہ کیسز کی آج تک کی سب سے کم تعداد رپورٹ کی۔
اس وقت 2016 میں ٹائپ ون وائلڈ پولیو وائرس کے 19 اور 2 انوائرمینٹل سیمپلز پوزیٹو فار ٹائپ 2 وی ڈی پی کیسز تھے (ایک کیس بعد میں سامنے آیا تھا)۔
یہ نہیں پڑھیں: ’پولیو مہم سے پیسہ ختم کریں، پھر دیکھیں ملک سے پولیو ختم ہوتا ہے کہ نہیں‘
تاہم رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ دسمبر 2020 کے آغاز تک پاکستان میں ٹائپ ون کے 82 کیسز اور ٹائپ ٹو کے 104 کیسز تھے۔
پولیو وائرس کے ممالک کے درمیان سفر کرنے سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا کہ اپریل سے جون 2020 کے درمیان کافی حد تک سرحد پار بین الاقوامی پھیلاؤ دیکھا گیا، مثال کے طور پر پاکستان سے افغانستان: آئیوری کوسٹ سے مالی، گیونیا سے مالی، آئیوری کوسٹ سے گھانا، گھانا سے واپس آئیوری کوسٹ، سینٹرل افریقن ریپبلک سے کیمرون اور چھڈ سے سوڈان اور جنوبی سوڈان وغیرہ۔
علاوہ ازیں ایک تکنیکی ماہر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ آئی ایم بی اس بات پر کافی حد تک ٹھیک تھا کہ کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے حکومت کی مرضی ہے لیکن 3 دہائیوں سے زیادہ میں پولیو کا مقابلہ کرنے میں یہ مخلصانہ کوشش نظر نہیں آئیں۔