شام: بشارالاسد کے قافلے پر حملہ اور حکومتی تردید

شائع August 8, 2013

شام کے صدر بشارالاسد عید کی نماز کیلئے دمشق کی ایک مسجد میں موجود ہیں۔ اے ایف پی تصویر
شام کے صدر بشارالاسد عید کی نماز کیلئے دمشق کی ایک مسجد میں موجود ہیں۔ اے ایف پی تصویر

دمشق: شامی اداروں نے باغیوں کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ جمعرات کو نمازِ عید کیلئے مسجد جانے والے صدر کے قافلے پر حملہ ہوا ہے۔

سعودی عرب کے العربیہ ٹی وی چینل سمیت کئی میڈیا اداروں نے اطلاع دی تھی کہ دمشق کے مرکز میں انس بن مالک مسجد کی جانب نمازِ عید کیلئے جانے والے بشارالاسد کے قافلے کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

شام کے وزیرِ اطلاعات نے سرکاری ٹی وی پر کہا ہے کہ سب کچھ نارمل ہے۔

' یہ رپورٹیں غلط ہیں، صدر خود اپنی گاڑی چلارہے تھے۔ انہوں نے نماز پڑھی اور لوگوں کو مبارکباد دی۔ ' انہوں نے کہا۔

تاہم شام میں انسانی حقوق کی آبزرویٹری نے بھی راکٹ حملوں کی خبروں کی تصدیق نہیں کی۔

 اس سے قبل بدھ کے روز دمشق کے قریب ایک خونریز جھڑپ میں سرکاری افواج نے کم ازکم 60 باغیوں کو ہلاک کردیا ہے۔

سرکاری نیوز ایجنسی ایس اے این اے کے مطابق صبح سویرے ادرہ کے قریب یہ لڑائی ہوئی جس میں درجنوں ہلاک ہوئے۔

انسانی حقوق کے متعلق شام میں موجود برطانوی آبزرویٹری نے باسٹھ باغیوں کے مرنے کی تصدیق کی ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ مرنے والوں میں غیرملکی جنگجو بھی شامل تھے جو القاعدہ سے وابستہ جبل النصرہ یا النصرہ فرنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔

واضح رہے کہ دارالحکومت ہونے کی بنا پر دمشق باغیوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہے جو شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

ٹی وی الاخباریہ نے اس لڑائی کے بعد کی فوٹیج میں باغیوں کی لاشیں دکھائی ہیں جن میں سے کچھ کیموفلاج لباس پہنے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی تیونس کے ایک باشندے کا پاسپورٹ بھی دکھایا ہے جس کا سال پیدائش1978 ہے۔

اے پی کے مطابق نواحی علاقے قلمون سے کوئی 56 باغی دوسرے علاقوں تک جارہے تھے۔

دوسری جانب شام میں دوسال سے زائد عرصے سے جاری لڑائی میں اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں جن میں اکثریت عام افراد کی ہے۔ اس کے علاقہ لاکھوں شامی باشندے، لبنان اور اردن میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025