شمس الرحمٰن فاروقی: ادب کا ایک عہد رخصت ہوا
رواں برس 2020ء جاتے جاتے ہم سے ایک اور ایسا انمول شخص لے گیا، جس کے بغیر اردو شعر و ادب کی راہداریوں میں کئی دنوں تک اداسی رہے گی۔ شاعری کے آنگن اور تنقید کی بالکونی میں خیال پرندے نہیں اتریں گے۔ ان سے محبت کرنے والے قاری اور سامع، داستان کی راہ پر، آنکھیں بچھائے راستہ تکتے رہیں گے، لیکن وہ اب نہیں آئیں گے۔ ایک عہد تھا، جو اب رخصت ہوا۔
شمس الرحمٰن فاروقی عالمگیر شہرت رکھنے والے ہندوستانی شاعر، ادیب، محقق، نقاد، مترجم، لغت نویس اور دیگر تخلیقی جہتیں رکھنے والے ہمہ صفت شخص تھے، جنہوں نے اپنی تخلیقات میں برِصغیر پاک و ہند کی تہذیبی روایات کی بازیافت کی۔
پہلے خود شعر و ادب کی تفہیمی منازل طے کیں، پھر قارئین کو بھی اس عمل میں شامل کرلیا۔ اظہار کی نوعیت بدلتی رہی، مگر خیال کی پرواز قائم رہی۔ وہ اپنے پرکھوں کی تہذیب کی سمت جانے والی پگڈنڈی کھوجتے رہے، تہذیب کے نقوش کی تلاش کا سلسلہ آخری سانس تک جاری و ساری رہا۔
مزید پڑھیے: مستنصر حسین تارڑ سے مکالمہ
وہ 15 جنوری 1935ء کو پیدا ہوئے اور 25 دسمبر 2020ء میں انتقال ہوا۔ کم عمری میں ہی ان کو شعر و ادب سے دلچسپی ہوگئی تھی۔ 1955ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا، اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا بھی انگریزی تدریس سے کی۔ آگے چل کر سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے اور انڈیا کے محکمہ ڈاک میں باقاعدہ ملازم ہوگئے، جہاں سے 1994ء میں ریٹائرمنٹ ہوئی۔
ان کے خیال میں ادبی زندگی کو فعال بنانے میں اس ملازمت کا بھی کلیدی حصہ ہے، کیونکہ محکمہ ڈاک میں رہنے کی وجہ سے بڑے بڑے شہروں میں تبادلہ ہوتا رہا، کتب خانوں تک باآسانی رسائی رہی اور سب سے بڑھ کر ڈیوٹی کے اوقات کار ایسے تھے، جس میں پڑھنے لکھنے کا وافر وقت میسر آیا۔
وہ مختلف ادبی اداروں سے بھی وابستہ رہے اور کئی جامعات سے بھی تعلق قائم رہا۔ تمام نمایاں ہندوستانی اور کئی عالمی اعزازات بھی وصول کیے، ان میں ‘سرسوتی سمان’ سمیت ‘پدم شری’ جیسے معتبر ایوارڈز بھی شامل ہیں۔ ان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی، پھر قارئین کی طرف سے داد و تحسین کے جو پھول نچھاور کیے گئے، ان کی خوشبو سے جہانِ ادب ایک عرصے سے مہک رہا ہے۔
انہوں نے اپنی کامیاب ادبی زندگی کے لیے اپنی شریکِ حیات کی خدمات کا اعتراف بھی بارہا کیا، جن کی بے لوث حمایت اور گھریلو آسودگی نے ان کو لکھنے پڑھنے کے کام میں مستقل مزاجی دی۔ 2 بیٹیوں کی تربیت اس کے علاوہ ہے، جن میں ایک بیٹی ڈاکٹر مہر افشاں فاروقی نے والد کے ورثہ کو آگے بڑھایا، وہ خود بھی تدریس و تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں۔ ان کی کامیابی سے بھی فاروقی صاحب مسرور و شاد رہتے تھے۔
شمس الرحمن فاروقی نے انگریزی اور اردو زبان میں تنقید، شاعری، تراجم، عروض و ابلاغ کے حوالے سے متعدد کتابیں لکھیں۔ کئی ناول اور افسانے لکھے۔ ایک ادبی جریدہ ’شب خون’ جاری کیا، جو 4 دہائیوں تک شائع ہوتا رہا۔ نئے ہندوستانی قلم کاروں کو سامنے لانے میں اس جریدے کی خدمات بہت وسیع ہیں۔
مزید پڑھیے: ہمارے انور مقصود
ان کی کل کتابوں کی تعداد تقریباً 40 سے 50 کے درمیان ہے، جبکہ زیادہ تر تنقید کی کتابیں ہیں۔ ان کے ادبی جریدے کو اردو دنیا میں بہت شہرت ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی تنقید میں، کلاسیکی شاعر میر تقی میر کے حوالے سے لکھی گئی کتاب ’شعر شور انگیز’ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ 4 جلدوں پر مشتمل یہ تنقید کا توانا کام پاکستان سے بھی شائع ہوا، جس کو عکس پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ انہوں نے منٹو پر بھی ایک کتاب جبکہ غالب کے علاوہ اردو کی تفہیم، مغربی ادب، عروض، لغت نویسی سمیت تدریسی و نصابی و دیگر کتب بھی لکھیں۔
ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں سب سے زیادہ مشہورِ زمانہ کتاب، ان کا ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ ہے، جو سب سے پہلے پاکستان سے جنوری 2006ء کو شہرزاد پبلی کیشنز، کراچی سے شائع ہوا۔ چند مہینوں کے بعد، اس ناول کی پہلی اشاعت ہندوستان سے ہوئی۔ اس ناول کا ہندوستانی ایڈیشن پینگوئن بکس، انڈیا نے شائع کیا۔ اس ناول کا انگریزی ترجمہ بھی فاروقی صاحب نے خود کیا، جس کو بہت پذیرائی بھی ملی۔
ابھی حال ہی میں پاکستان سے اس ناول کا نیا ایڈیشن شائع ہوا ہے، جس کو بک کارنر، جہلم نے شائع کیا ہے۔ فاروقی صاحب کی کلیات ’مجلس آفاق میں پروانہ ساں‘ بھی پاکستانی اشاعتی ادارے، رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی سے شائع ہوچکی ہے۔
فاروقی صاحب نے اپنے بیشتر تخلیقی کام کو انگریزی میں خود ہی منتقل کیا۔ لغت نویسی کے حوالے سے بھی کافی تحقیق کی، جس پر وہ ان دنوں بھی کام کر رہے تھے۔ اس سلسلے کی کئی جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی ثقافت کے تناظر میں دلی اور لکھنو کی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھتے ہوئے فکشن نگاری میں نئی جدت طرازی پیدا کی اور نئے در وا کیے۔
شمس الرحمن فاروقی کی پرورش اور پرداخت کچھ اس انداز پر ہوئی تھی کہ وہ ابتدائی زندگی میں انگریزی تہذیب اور ادب سے متاثر تھے۔ انہوں نے مغربی افکار اور خیالات کے زیرِ سایہ تنقید لکھنا شروع کی، مگر تنقید و تحقیق کے سفر میں پھر ان پر اپنی تہذیب منکشف ہوئی۔ برِصغیر پاک و ہند کی تہذیب، جس کو جاننے کی چاہ میں، وہ ماضی کی طرف لوٹے اور کئی سو سال پرانی ہندوستانی معاشرت کو کھنگالا۔ اردو کے کلاسیکی ادب، شعرائے کرام کی لفظیات، روایتی سماج کا برتاؤ، مشرقی لہجوں کی تاثیر اور کئی دیگر رومان پرور ثقافتی پہلوؤں سے روشناس ہوئے، یوں انہی روایات کے ہوکر رہ گئے۔
میری نظر میں یہ ان کے تخلیقی وجود کا نیا جنم تھا۔ انہوں نے اسی کیفیت کے زیرِ اثر ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ جیسا ناول لکھا اور ’قبضِ مکاں‘ جیسا ناولٹ بھی، دیگر افسانے اور کہانیاں ان کے سوا ہیں۔
وہ داستان گوئی کے عشق میں بھی گرفتار ہوئے اور اس کے احیا کی عملی کوششیں کیں، جس کا ایک بڑا ثبوت، ان کے بھتیجے محمود فاروقی ہیں، جنہوں نے ان کی ترغیب پر داستان گوئی سے اپنا ناطہ جوڑا اور ایک مردہ ہوجانے والے فن کا جادو پھر سے جگا دیا۔ پاکستان کے نامور ادیب انتظار حسین کے بعد، میں نے کسی میں داستان اور تہذیب کے لیے جو وارفتگی دیکھی تو وہ فاروقی صاحب تھے۔
کئی مرتبہ شمس الرحمٰن فاروقی پاکستان آئے۔ مجھے ان سے کراچی میں 2 ملاقاتیں کرنے کا موقع ملا، جس میں ایک ملاقات تفصیلی انٹرویو کی غرض سے تھی۔ اس مکالمے کے ذریعے مجھے ان کی زندگی اور کام کے بارے میں تفصیل سے جاننے کا موقع ملا۔ میں نے ان کو ایک شفیق، منکسر اور اپنے کام سے ایماندار پایا۔
میری پہلی ملاقات ان سے 2009ء میں ہوئی، جب وہ کراچی آرٹس کونسل کی منعقد کردہ عالمی کانفرنس میں تشریف لائے، جبکہ دوسری مرتبہ ان کی آمد 2010ء میں ہوئی، جب وہ کراچی لٹریچر فیسٹیول میں آئے تھے۔ اس موقع پر میں نے ان سے تفصیلی مکالمہ کیا تھا، جس میں انہوں نے داستان گوئی کی اہمیت، ناول کی دنیا، تنقید کے کثیر جہتی پہلوؤں سمیت دیگر موضوعات پر چومکھی گفتگو کی۔
مزید پڑھیے: قدرت اللہ شہاب: بابو سے بابا جی تک
اس موقع کی تصاویر مجھ سے ضائع ہوگئیں، البتہ فیس بک پر کسی دوست نے گروپ فوٹو لگائی، جس میں، مَیں بھی ان کے ہمراہ دکھائی دے رہا ہوں، یہ عجیب اتفاق ہے، مجھے یہ تصویر یاد نہیں تھی، اور میری ان کے ساتھ اب یہی واحد تصویر ثابت ہوئی ہے، جو مجھے ان سے ملاقاتوں کی حسین یاد دلاتی رہے گی۔
ان کی 2 کتابیں، جن میں پہلی تنقیدی کتاب ’شعر شور انگیز’ اور دوسری کتاب، ان کا ناول ’کئی چاند تھے سرِآسماں‘ ہے۔ ان دونوں کتابوں کی وجہ سے یہ اردو شعر و ادب کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کے ناول کا جادو تو ادب کی دنیا سے نکل کر فلم کی دنیا تک بھی جا پہنچا۔
بولی وڈ کے معروف اداکار عرفان خان نے جب ان کا یہ ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ ہندی میں پڑھا، تو اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے فاروقی صاحب کو خط لکھ کر اپنے تاثرات سے آگاہ کیا، پھر بعد میں ملاقات بھی کی اور اس ناول پر فلم بنانے کے حقوق بھی حاصل کیے۔ میری نظر میں یہ خط فاروقی صاحب کی ادبی جمالیات، شعری احساسات، تنقیدی جہات کے ساتھ ساتھ اس نرماہٹ کو بھی بیان کر رہا ہے، جو اس ناول کو پڑھتے ہوئے قاری کے تصور میں نمودار ہوتی ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کے اس ناول میں، اردو کے معروف کلاسیکی شاعر نواب مرزا داغ دہلوی کی والدہ ’وزیر بیگم’ کو مرکزی کردار کے طور پر لیا گیا ہے، جس میں ان کی ذاتی زندگی اور گرد و پیش میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ 200 سال پرانے انگریزوں کے تسلط شدہ ہندوستان کی کہانی میں وزیر بیگم کی کہانی کو یوں بیان کیا ہے اور کیا خوب بیان کیا ہے۔ یہ صرف ایک ناول ہی نہیں، تہذیب کا نوحہ بھی ہے، جس کو فاروقی صاحب نے خونِ جگر سے لکھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے سحر میں ایک زمانہ مبتلا ہوچکا ہے۔
ممتاز اداکار عرفان خان نے ان کو جو خط لکھا تھا، وہ بظاہر نثری تحریر ہے، مگر اس میں شعریت رواں ہے، اس کا لہجہ بھی تہذیب کی محبت میں ڈوبے ہوئے شخص کا لہجہ ہے اور ایسے قاری کا لہجہ بھی، جو اپنی گم گشتہ تہذیب کے عشق میں گرفتار ہو۔ یہ شاعرانہ خط فاروقی صاحب کے کام کی صحیح معنوں میں داد ہے، اس خط کو پڑھیں یا ناول کو، دونوں تصوراتی طور پر، ہماری انگلی تھام کر ہمیں، اس ہندوستانی تہذیب کے ادوار میں لے جاتے ہیں، تصور کے جہاں میں اس طرح کا منظرنامہ حیران کر دینے والا ہے۔
مزید پڑھیے: بانو قُدسیہ: سرائے موجود ہے، داستان رخصت ہوئی
ایک طرف میر تقی میر اور واجد علی شاہ کی جمالیات سے مزین سماج، ایک حسین پینٹنگ کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری طرف غالب کی شاعری میں بجھتی ہوئی شمع کا دھواں اٹھ رہا ہے، تیسری طرف وہ طوائفیں، جو غالب کی غزلوں کو سنبھالے ہوئے ہیں، انہیں گاکر داد و تحسین کا شور بلند کر رہی ہیں۔ ایک کے بعد ایک منظر برپا ہے۔
ان میں سے کئی مناظر ناول میں نہیں، مگر اس ناول کو پڑھتے ہوئے ذہن کے پردے پر ابھرنے لگتے ہیں۔ عرفان خان نے بھی انہی مناظر کو اپنے تصور کے پردے پر متحرک کردیا، مگر اس ناول پر فلم نہ بن پائی کہ پہلے عرفان خان اس دنیا سے چلے گئے اور اب شمس الرحمٰن فارقی بھی۔ ایک کہانی تمام ہوئی اور ایک عہد رخصت ہوا۔ اس خط کے الفاظ، ایک بازگشت کی مانند میرے کانوں میں گونج رہے ہیں، آپ بھی محسوس کرسکتے ہیں تو کیجیے۔ اس خط کا اقتباس پیش خدمت ہے۔
‘جناب شمس الرحمٰن صاحب، آداب۔ سب سے پہلے، اپنے اس لکھے کی معافی چاہتا ہوں کہ میں اپنے خیالات کو ڈھنگ سے تحریر نہیں کر پاتا۔ میں کافی عرصے سے، آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا اور آخرکار آپ سے بات ہو بھی گئی۔ سنیما کے پیشے میں کہانیوں سے میرا تعلق برسوں پرانا ہے۔ لوگوں کے ساتھ خود کو بانٹنے کے لیے کہانیوں سے بڑا کوئی منچ نہیں ہے۔ کہانیاں میرا حصہ بن جاتی ہیں، میرے ساتھ رہتی ہیں۔ مہینوں اور برسوں تک، مجھ سے بار بار باتیں کرتی رہتی ہیں۔ کہانیاں جو زندگی کے مختلف پہلو کہتی ہیں، مجھے بہتر بناتی ہیں۔ کہتے ہیں، آپ کتابوں کو نہیں کھوجتے، بلکہ کتابیں آپ کو کھوجتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کی کتاب نے مجھے کھوج لیا۔ میں حیران ہوں، متاثر ہوں، جادو ہے آپ کی قصہ گوئی میں۔ میں نے جب سے آپ کی کتاب پڑھی ہے، لگتا ہے کہ وہ میرے ذہن میں بس گئی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے اس نے مجھے باندھ لیا ہے۔ میں اسے سنیما میں لوگوں کے لیے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے جو حکم ہو، فرمائیے گا، منتظر رہوں گا۔ ایک ادنیٰ سا فنکار۔ عرفان’
شمس الرحمٰن فارقی نے اپنے اس ناول ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ کا عنوان، پاکستان کے ممتاز شاعر احمد مشتاق کے مشہور شعر کے مصرعہ سے مستعار لیا۔ میرے خیال میں فاروقی صاحب کی زندگی کا خلاصہ بھی یہی شعر ہے۔ ایک نے شعر لکھا تو دوسرے نے اس کی تشریح کردی۔ یہ اردو شاعری کی دنیا میں کسی شعر کی سب سے شاندار، جامع اور رومانوی تشریح ہے، جس کو ناول کی صورت میں قارئین نے پڑھا۔ یہ شعر اردو شاعری کی لوح پر ہمیشہ درج رہے گا اور ناول اردو ادب کی تاریخ میں
کئی چاند تھے سرِ آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی