ایم کیو ایم کا مطالبہ جائز لیکن مردم شماری 2022 میں شروع ہوگی، گورنر سندھ
گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی جانب سے کراچی میں مردم شماری دوبارہ کروانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بھی مطالبہ ہے لیکن اس وقت ممکن نہیں تاہم 2022 میں یہ عمل شروع کریں گے۔
مختلف چینلز سے بات کرتے عمران اسمٰعیل نے کہا کہ 'ہماری اتحادی جماعتیں خاص طور پر ایم کیو ایم اور خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس میں مردم شماری کی بات کی ہے لیکن اس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، ایک دن میں نہیں ہوتا بلکہ بڑی منصوبہ بندی اور بڑے خرچے کی ضرورت ہوتی ہے'۔
مزید پڑھیں: 'کراچی کے بارے میں کوئی اتفاق رائے ہوا ہے تو حکومت مقامی لوگوں کو آگاہ کرے'
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ صرف ایم کیو ایم کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ عمران خان کی جماعت کا بھی مطالبہ تھا کہ مردم شماری دوبارہ ہونی چاہیے'۔
عمران اسمٰعیل نے کہا کہ 'ان کے ساتھ زبردست انڈراسٹینڈنگ سے حکومت چل رہی ہے اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایم کیو ایم حکومت سے باہر چلی جائے یا اتحاد چھوڑ دے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایم کیو ایم اس وقت جو مطالبہ کر رہی ہے وہ صریحاً جائز ہے، اس میں کوئی غلط بات نہیں ہو رہی ہے، وہ جس پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں وہ تمام جماعتوں میں پائی جاتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اس وقت بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں اور اس سے پہلے مردم شماری ممکن نہیں ہے، وزیر اعظم نے بھی یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ بھی مردم شماری دوبارہ کرانے کے حق میں ہیں لیکن اس کے لیے بہت بڑا خرچہ اور پاک فوج کی مدد چاہیے لیکن فی الحال سرحد پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کے حالات ہیں، اس لیے اتنی بڑی تعداد میں اہلکار بھیجنا ممکن نہیں ہے'۔
گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ 'اگر مردم شماری کا عمل آج بھی شروع کیا جائے تو اس میں کافی وقت لگتا ہے، اس لیے فی الحال اسی مردم شماری کو تسلیم کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور 2023 کے انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کرانا چاہتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: مردم شماری 2017 کی رپورٹ حتمی منظوری کے لیے پیش کرنے کی منظوری، شبلی فراز
انہوں نے کہا کہ '2022 میں مردم شماری کا عمل شروع کریں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ 2023 میں نئے انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں'۔
اس سے قبل (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کراچی والوں کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رکھا گیا، ان کو کم گنا گیا اور ان کی نمائندگی کو صرف 25 فیصد کردیا گیا مگر پھر بھی یہ شہر پاکستان کو 65 فیصد اور سندھ کو 95 فیصد ریونیو دیتا ہے۔
مردم شماری کو منظور کرنے کے وفاقی کابینہ کے فیصلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ کوئی قومی اتفاق رائے موجود ہے، بات سنی جارہی ہوتی ہے مگر عمل در آمد نہیں ہورہا ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ریاست اور حکومت سے سوال ہے کہ ایسا کوئی اتفاق رائے ہوگیا ہے تو کراچی کے عوام کو ضرور بتائیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'سندھ کے شہری علاقے 1947 میں ہندو اکثریتی شہر تھے اور ایک معاہدے کے تحت مہاجر یہاں آئے اور ہندو یہاں سے گئے، ان شہروں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور مردم شماری میں ان کی آبادی کو بہت کم کرکے دکھایا گیا ہے'۔
ایم کیو ایم کنوینر کا کہنا تھا کہ 'یہ الزام ثابت ہوچکا ہے کہ کسی نہ کسی وقت پر حکومتوں نے جان بوجھ کر ان آبادیوں کو کم دکھایا، بھٹو صاحب کے دور میں آبادی کو کم دکھانے پر کمشنر کو سزا بھی دی جاچکی ہے'۔
مزید پڑھیں: ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا، ہم حکومت میں کیوں شامل رہیں، خالد مقبول
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے حکومت میں شامل ہونے کے لیے سب سے پہلا نقطہ مردم شماری کا رکھا تھا، یہ سیاسی مطالبہ نہیں،ہمارا مطالبہ سندھ کے شہری علاقوں کے لیے نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے، یہ شہر جو پورے پاکستان کو چلا رہا ہے اس کی نمائندگی صحیح طرح نہیں کی گئی اور اس کو وسائل بھی پوری طرح سے نہیں دیے گئے۔
خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ حکومت نے مردم شماری پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور آخری وقت میں بھی جو بات چیت کی گئی تھی اس سے مختلف فیصلہ کیا گیا، کابینہ نے جب یہ فیصلہ کیا اس وقت کابینہ میں موجود ایم کیو ایم کے نمائندے نے شدید احتجاج بھی کیا تھا اور سخت اختلافی نوٹ بھی لکھا ہے۔
ایم کیو ایم کے کنوینر نے کہا کہ 'ہم اپنے موقف پر قائم رہیں گے اور حکومت میں ہمارے ہونے کی بنیاد اس مطالبے پر ہی ہے، ہم اپنے اس مطالبے پر عوام سے رجوع کریں گے اور متحدہ قومی موومنٹ کا تنظیمی ڈھانچہ گلی کوچوں میں اگلے لائحہ عمل کے لیے عوام سے ان کی رائے معلوم کرے گا'۔