• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا، ہم حکومت میں کیوں شامل رہیں، خالد مقبول

شائع December 24, 2020
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان میں یہ حکومت ہی نہیں جمہوریت بھی ہماری 7 نشستوں پر کھڑی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان میں یہ حکومت ہی نہیں جمہوریت بھی ہماری 7 نشستوں پر کھڑی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

سابق وفاقی وزیر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب ایک وعدے پر بھی عمل نہیں ہوا تو ہم حکومت میں کیوں شامل رہیں۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 'ملک کی صورتحال کورونا کے حوالے سے بھی خراب ہے اور پاکستان کی بھی وہ بہتری جس کی ہم امید لگا کر بیٹھے تھے اس کی بھی کوئی صورت و شکل نظر نہیں آرہی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'وہ فرق جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور ہم سب کی امید تھی کہ شاید اس بار جاگیردارانہ جمہوریت سے کچھ مختلف ہوگا لیکن ایسی جمہوریت جس کے ثمرات عام پاکستانیوں کے گھروں تک نہ پہنچیں وہ بےمعنی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وہ ملک اور معاشرہ جو اپنے لوگوں کو گننے کی بھی استعداد نہ رکھتا ہو اور جو مردم شماری ہی ٹھیک طریقے سے نہ کرسکے وہ مردم شناسی کیسے ٹھیک طرح سے کرسکتا ہے، اس حوالے سے پاکستان میں ہمیشہ سوالات و اعتراضات اٹھتے رہے ہیں لیکن سندھ کے شہری علاقوں کے حوالے سے ہمیشہ ناصرف یہ اندیشہ و شکایات رہی ہیں بلکہ کئی صورتوں میں یہ ثابت بھی ہوا ہے کہ سندھ کے شہری علاقے بالخصوص کراچی کی آبادی کئی بار نصف یا 25 فیصد کم دکھائی گئی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے دوبارہ مردم شماری سے متعلق ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست نمٹا دی

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ 'ہم مردم شماری سے قبل ہی اعتراضات اور تاریخی ثبوت لے کر عدالتوں میں گئے، مردم شماری کے بعد ہمارے خدشات درست ثابت ہوئے اور کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ کی جگہ 60 لاکھ دکھائی گئی'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے اس حکومت میں شامل ہوتے وقت پہلا نقطہ ہی مردم شماری رکھا تھا جسے ایم کیو ایم کے تمام تر خدشات اور اعتراضات کے باوجود وفاقی حکومت نے یکطرفہ طور پر منظور کرلیا ہے، میں وزیر اعظم عمران خان اور حکومت سے سوال کرتا ہوں کہ اس ایک نقطے پر بھی آپ نے ہمیں انگیج رکھا لیکن کچھ نہ کیا تو ہمیں وہ جواز بتادیں کہ ہم حکومت میں کیوں شامل ہیں؟ ہم وہاں کیا کریں؟ آپ نے ہم سے کیے گئے ایک بھی وعدے پر عملدرآمد نہیں کیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'پی ٹی آئی کے لوگ کسی بھی طرح سے جیت کر کراچی کے عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں، ہم کابینہ میں کیوں ہو جب ہماری آواز نہ سنی جائے، کیا زیادتی پر آواز اٹھانے اور انصاف حاصل کرنے کی جگہ صرف سڑکیں ہیں، حکومت سے سندھ کے عوام مایوس ہیں، ایسا نہ ہو کہ سندھ کے عوام اتنے مایوس ہوجائیں کہ وہ قومی ایشوز پر خود کو لاتعلق کر لیں'۔

مزید پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان نے سندھ میں نئی مردم شماری کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

کنوینر ایم کیو ایم نے کہا کہ 'اب ایوانوں سے مایوس ہوکر سڑکوں پر آکر عوام کے سامنے اپنا مقدمہ رکھنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں مزدور کی نمائندگی مزدور، کسان کی نمائندگی کسان کرے اور عام پاکستانی مضبوط ہو'۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 'کیا اپوزیشن کی کسی جماعت کا دفتر بند ہے، کیا کسی جماعت کے کارکنان لاپتہ ہیں، اگر حکومت کو مطالبہ غلط لگتے تھے تو اس وقت نہ مانتے'۔

خالد مقبول صدیقی نے چیف جسٹس آپ پاکستان کی سربراہی میں مردم شماری کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کرتے کہا کہ کمیشن جعلی مردم شماری کی تحقیقات کرے'۔

انہوں نے کہا کہ 'مردم شماری ٹھیک نہ ہو تو الیکشن بھی جعلی ہی کہلائے گا کیونکہ کراچی میں ووٹرز زیادہ آبادی کم دکھائی گئی ہے'۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان میں یہ حکومت ہی نہیں جمہوریت بھی ہماری 7 نشستوں پر کھڑی ہے اس لیے ہم ایسا کوئی تاثر نہیں دینا چاہتے جس میں بلیک میلنگ کی بو بھی ہو، یہ ہمارا وعدہ تھا حکومت کو گرنے نہیں دیں گے، ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے وعدے نبھائے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس حکومت سے باہر آنے کا آپشن موجود ہے کیونکہ حکومت میں رہتے ہوئے احتجاج کی کوئی اہمیت نظر نہیں آئے گی، لیکن ہمیں کوئی جلدی نہیں ہے اور پی ڈی ایم کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ ہم محاذ آرائی نہیں چاہتے'۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024