• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

14سو سال پرانے وشنو مندر کے آثار کی دریافت: سوات کی اہمیت تو دگنی ہوگئی

شائع December 24, 2020

اگر آپ سوات میں سکندرِ اعظم کا شہر کہلانے والے بازیرہ کی چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر کھڑے ہیں اور اس کی تاریخی اہمیت سے آگاہ ہیں، تو اپنی 25 سے 30 منٹ پر مبنی ہائیک کا لطف دوبالا سمجھیں۔

اور اگر آپ اس کی تاریخ سے آگاہ نہیں ہیں، تو کوئی بات نہیں۔ پھر آپ ‘بریکوٹ غونڈئی’ کے اوپر کھڑے ہیں۔ یہاں سے چاروں طرف نظر دوڑائیں اور تاحدِ نظر سوات کی خوبصورتی کا لطف اٹھائیں۔

جہاں سے اگر ایک طرف دریائے سوات اپنی وسعت کے ساتھ کسی بل کھاتے سانپ کی طرح دُور دُور تک بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے، تو دوسری طرف سوات کی پہچان ‘کوہِ ایلم’ دسمبر کے مہینے میں برف کی سفید چادر اوڑھے اور سینہ تانے کھڑا دکھائی دیتا ہے۔

تحصیلِ بریکوٹ کو ایک طرح سے ضلع سوات کا گیٹ وے کہہ لیں۔ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ آتے وقت جب گاڑی بریکوٹ میں بازیرہ کی حدود میں داخل ہوتی ہے، تو بائیں ہاتھ پر ایک چھوٹی سی پہاڑی نظر آتی ہے، جسے مقامی لوگ ‘بریکوٹ غونڈئی’ کہتے ہیں۔ غونڈئی پشتو زبان کا لفظ ہے، جسے چھوٹی پہاڑی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تھوڑی دیر کے لیے سکندرِ اعظم (Alexander the Great) کے شہر ‘بازیرہ’ کے آثار کے لیے آدھا گھنٹہ رُکنا بالکل گھاٹے کا سودا نہیں۔

‘بریکوٹ غونڈئی’ ہزار بارہ سو فٹ بلند پہاڑی ہے، جہاں 30 منٹ کی ہائیکنگ کے بعد پہنچا جاسکتا ہے۔ ایک عرصے سے یہ پہاڑی ہائیکنگ کے شوقین حضرات کے لیے اچھی فوٹوگرافی کا ذریعہ تھی، مگر اب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو کھدائی کے دوران کچھ ایسے تاریخی حوالے ہاتھ آئے ہیں کہ اس کی اہمیت دُگنی ہوگئی ہے۔

سکندر اعظم کے شہر بازیرہ کی تصویر جس کے عقب میں ’غونڈئی‘ نمایاں ہے
سکندر اعظم کے شہر بازیرہ کی تصویر جس کے عقب میں ’غونڈئی‘ نمایاں ہے

غونڈئی سے دریائے سوات کا منظر
غونڈئی سے دریائے سوات کا منظر

بازیرہ تک کیسے پہنچیں؟

ہماری خوش بختی ہے کہ ہم سوات کے باسی ہیں۔ مینگورہ شہر سے 30 منٹ کی ڈرائیو پر بازیرہ پہنچا جاسکتا ہے۔ باہر سے آنے والے سوات موٹر وے سے اترنے کے بعد جی ٹی روڈ پکڑے رہیں۔ جیسے ہی سوات کی سرحد ’لنڈاکے‘ کی چیک پوسٹ کراس کرتے ہیں، تو چونکہ سڑکوں کی حالت اب کافی بہتر ہے، اس لیے وہاں سے 8.8 کلومیٹر کی مسافت اور محض 15 منٹ کی ڈرائیو پر آپ سکندرِ اعظم کے شہر بازیرہ باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔ بازیرہ کے آثار لبِ سڑک موجود ہیں۔ بریکوٹ پہنچتے ہی ایک سڑک کی ایک جانب سائن بورڈ، جس پر جلی حروف سے ’بازیرہ‘ لکھا ہوتا ہے، آپ کو اپنے استقبال میں کھڑا دکھائی دے گا۔

بازیرہ، سکندرِ اعظم کا شہر کیوں کہلاتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سوات کے صحافی اور آثارِ قدیمہ کا مطالعہ رکھنے والے فضل خالق اپنی کتاب ‘اُدھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ’ کے صفحہ نمبر 71 پر کچھ یوں رقم کرتے ہیں ‘بازیرہ بریکوٹ کا پرانا نام ہے جسے سکندرِ یونانی نے 327 قبلِ مسیح میں فتح کیا تھا اور جسے ہندو یونانی دور میں ایک مضبوط چھاؤنی کے طور پر بنایا گیا تھا۔ بعد میں ساکا پارتھین دور کے لوگوں نے برقرار رکھا اور جب اس کی فوجی چھاؤنی کی حیثیت ختم ہوئی، تو یہ ایک بڑے شہر کی حیثیت اختیار کرگیا۔ اس شہر کے بارے میں بازیرہ یا بائرہ کا ذکر یونانی مؤرخین، کورشس روفوس اور آریان کی تاریخ میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بازیرہ تاریخ میں سکندرِ یونانی کے شہر سے موسوم ہے’۔

بریکوٹ غونڈئی کے اوپر تازہ ترین کھدائی کے دوران ہندو شاہی دور کے ‘وشنو مندر’ کے آثار ہاتھ آئے ہیں۔ ان کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کوئی 1400 سال پرانے آثار ہیں۔

اس حوالہ سے ‘اٹالین آرکیالوجیکل مشن’ (Italian archaeological mission) کے سربراہ پروفیسر لوکا ماریا اولیوری (Prof. Luca Maria Olivieri) کے مطابق ‘نئی کھدائی میں ہمیں دیگر چیزوں کے ساتھ پانی کی ایک ٹینکی بھی ملی ہے جو چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کے ترک شاہی دور کے وشنو مندر کے لیے تعمیر کی گئی تھی’۔

غونڈئی سے بریکوٹ کا منظر جس میں سکندر اعظم کے شہر بازیرہ کے آثار نمایاں ہیں
غونڈئی سے بریکوٹ کا منظر جس میں سکندر اعظم کے شہر بازیرہ کے آثار نمایاں ہیں

غونڈئی پر نئے دریافت شدہ تاریخی وشنو مندر کی کھدائی جاری ہے
غونڈئی پر نئے دریافت شدہ تاریخی وشنو مندر کی کھدائی جاری ہے

مندر کی کھدائی میں ملنے والی پانی کی ٹینکی کا منظر
مندر کی کھدائی میں ملنے والی پانی کی ٹینکی کا منظر

پروفیسر لوکا آگے کہتے ہیں ‘مندر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ گندھارا تہذیب میں ہندو فنِ تعمیر کی پہلی مثال ہے۔ اس مندر کا تعلق ان حکمرانوں سے ہے جو کابل سے ہند تک برسرِ اقتدار تھے۔ یہ دور 1000 یا 1020 عیسوی میں اختتام پذیر ہوا جب ہندو شاہی سلطنت کو سلطان محمود غزنوی کی فوج نے شکست دی’۔

گندھارا تہذیب کیا ہے؟

فضل خالق اپنی کتاب ‘اُدھیانہ: سوات کی جنت گم گشتہ’ کے صفحہ نمبر 22 پر رقم کرتے ہیں کہ ‘گندھارا نام کا اوّلین ذکر ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید (BCE 1000-1200) میں ملتا ہے۔ اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ گندھارا سے مراد شمال مغربی سرحدی صوبے کا علاقہ ہے’۔

واضح رہے کہ ‘شمال مغربی سرحدی صوبہ’ اب ‘خیبر پختونخوا’ کہلاتا ہے۔

آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں مہارت رکھنے والے علاقائی مزدور مصروفِ عمل ہیں
آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں مہارت رکھنے والے علاقائی مزدور مصروفِ عمل ہیں

مندر سے ملنے والے مختلف آثار کو ٹوکریوں میں جمع کیا گیا ہے
مندر سے ملنے والے مختلف آثار کو ٹوکریوں میں جمع کیا گیا ہے

مندر سے ملنے والی دیگر مختلف آثار
مندر سے ملنے والی دیگر مختلف آثار

مذکورہ کتاب کے صفحہ نمبر 22 پر اگلا پیراگراف یوں درج ہے ‘گندھارا موجودہ شمالی مغربی پاکستان جو مغرب میں ہندوکش پہاڑی سلسلہ کے عقب سے لے کر شمال میں ہمالیہ کے تلہٹی تک اور پنجاب میں پوٹھوہار تک جب کہ افغانستان میں جلال آباد کی سرزمین تک پھیلے ہوئے علاقوں اور ان سے منسلک تہذیب کو کہتے ہیں۔ یہ تہذیب تقریباً چھٹی صدی قبل مسیح سے لے کر گیارہویں صدی عیسوی کے آغاز تک قائم رہی۔ یہ علاقہ ایران کے ہخامنشی سلطنت کے زیرِ اثر رہا اور جہاں 326 قبل مسیح میں سکندرِ اعظم آیا۔ چینی سیاح ہیون سانگ جو ساتویں صدی عیسوی میں یہاں آیا تھا، نے گندھارا کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ موجودہ پاکستان کے پشاور، چارسدہ، مردان، سوات، دیر اور باجوڑ کے علاقوں کے علاوہ پنجاب کا پوٹھوہار اور افغانستان کے کابل اور جلال آباد کے علاقے گندھارا میں شامل تھے۔ جب کہ بعض مؤرخین اور آرکیالوجسٹ کے مطابق سوات براہِ راست گندھارا میں شامل نہیں تھا’۔

اٹالین آرکیالوجیکل مشن کیا ہے؟

اٹالین آرکیالوجیکل مشن پچھلے 64 سالوں سے سوات میں آثارِ قدیمہ پر کام کر رہا ہے۔ اس کی تاریخ کے حوالے سے سوات کے سینئر صحافی فضل ربی راہیؔ اپنی کتاب ‘سوات سیاحوں کی جنت’ کے صفحہ نمبر 87 پر رقم کرتے ہیں کہ ‘اٹلی کے آثارِ قدیمہ کا مشن (Italian archaeological mission) سنہ 1956ء عیسوی (1956ء) میں پروفیسر ٹوچی کی سربراہی میں ریاستِ سوات آیا اور انہوں نے باضابطہ طور پر سوات کے آثارِ قدیمہ پر کام شروع کیا۔ یہاں جو قدیم نوادرات برآمد ہوتے وہ ایک معاہدے کے تحت اس کا کچھ حصہ اٹلی منتقل کیا جاتا اور باقی کے لیے سوات میں میوزیم کی بنیاد رکھی گئی’۔

مندر سے ہاتھ آئے مٹی کے بنے کسی جانور کی شکل
مندر سے ہاتھ آئے مٹی کے بنے کسی جانور کی شکل

اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے سربراہ پروفیسر لوکا، مقامی صحافی کو مندر کی تاریخ کے بارے میں بتا رہے ہیں
اٹالین آرکیالوجیکل مشن کے سربراہ پروفیسر لوکا، مقامی صحافی کو مندر کی تاریخ کے بارے میں بتا رہے ہیں

آج کل اٹالین آرکیالوجیکل مشن کی سربراہی پروفیسر لوکا ماریا اولیوری کر رہے ہیں۔ سنہ 1985ء سے وہ سوات کے مختلف حصوں میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں مصروف ہیں۔ مذکورہ مشن نے درجنوں آثار کی دریافت میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے، جن میں بریکوٹ کے مقام پر سکندرِ اعظم کا شہر کہلائے جانے والے مشہور تاریخی آثار ‘بازیرہ’ کی کھدائی کے ساتھ ساتھ اوڈیگرام سوات کے مقام پر ایک ہزار سال قدیم مسجد ‘سلطان محمود غزنوی مسجد’ کے آثار اور راجا گیرا کے محل کے آثار اہمیت کے حامل ہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024