• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

بحریہ ٹاؤن اراضی کیس میں استغاثہ کے گواہ کا بیان ریکارڈ

شائع December 24, 2020
عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہان کو طلب کرلیا—فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن ویب سائٹ
عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہان کو طلب کرلیا—فائل فوٹو: بحریہ ٹاؤن ویب سائٹ

کراچی: احتساب عدالت نے شہر میں بحریہ ٹاؤن کی کثیرالمنزلہ عمارت کے لیے تجارتی زمین کے مبینہ طور پر غیرقانونی انضمام سے متعلق کیس میں استغاثہ کے گواہ کا بیان ریکارڈ کرلیا گیا جبکہ آئندہ سماعت پر مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کیس میں سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال، سابق ضلعی کوآرڈینشن افسر فضل الرحمٰن، سابق ایگزیکٹو ضلعی افسر افتخار الدین قائم خانی، سابق ضلعی افسر ممتاز حید، سابق ایڈیشنل ڈی او سید نشاط علی اور اس سابق سب رجسٹرار 2 کلفٹن نذیر زرداری پر تقریباً 2 ارب روپے کی کرپشن کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اسی طرح ڈی جے بلڈرز اینڈ ڈیولپرز سے منسلک چار بلڈرز محمد داؤد، محمد یعقوب، محمد عرفان اور محمد رفیق پر بھی اسی کیس میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔

مذکورہ کیس جب احتساب عدالت نمبر 3 کی جج ڈاکٹر شیربانو کریم کے سامنے آیا تو خصوصی پبلک پراسیکیوٹر زاہد حسین بلادی نے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے گواہ کو پیش کیا۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن اراضی کیس میں بلڈر کے دوبارہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

گواہ منور حسن صدیقی ایک سرکاری افسر ہیں اور انہوں نے اپنے بیان ریکارڈ کرانے کے ساتھ ساتھ متعلقہ دستاویزات بھی پیش کیں۔

ان کے بیان کے بعد جج نے کیس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت 23 جنوری تک ملتوی کردی۔

نیب کے مطابق 1982 میں کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے ہٹائے گئے اخبار فروشوں کے لیے کوٹھاری پریڈ سے متصل دو ایمنٹی پلاٹوں پر 198 اسٹالز/دکانیں قائم کی تھیں جبکہ اسی جگہ پر چار کمرشل پلاٹس بھی نکالے گئے تھے جن میں سے ہر پلاٹ 255.55 گز پر مشتمل تھا۔

نیب کے مطابق ڈی جے بلڈرز نے چاروں کمرشل پلاٹ اور اخبار فروشوں کے 198 اسٹالز خرید لیے، تاہم یہ دو ایمنٹی پلاٹ کبھی بلڈرز کے نام پر منتقل نہیں کیے گئے۔

نیب نے مزید الزام لگایا تھا کہ ڈی جے بلڈرز سے منسلک زین ملک اور دیگر نے مصطفیٰ کمال اور فضل الرحمٰن اور دیگر کی مدد سے غیر قانونی طور پر کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر غیر قانونی طور پر 102 اسٹالز بحریہ ٹاؤن پرائیوٹ لمیٹڈ کے نام پر منتقل کروائے۔

نیب ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا کہ رجسٹریشن ڈیڈ میں ان اسٹالز کی قیمت صرف 26 کروڑ روپے دکھائی گئی حالانکہ ان کی مارکیٹ قیمت 2 ارب 10 کروڑ روپے سے زائد تھی اور جبری فروخت کی قیمت ایک ارب 72 کروڑ 24 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔

نیب نے الزام لگایا تھا کہ زین ملک نے پلاٹ کے اختلاط سے فائدہ اٹھایا، جسے مرکزی بینفشری (ڈی جے بلڈرز اینڈ ڈیولپرز) اور سب رجسٹرار 2 کلفٹن کی ملی بھگت سے بحریہ ٹاؤن کے نام غیرقانونی طور پر منتقل کیا گیا تھا۔

بلڈرز کی پلی بارگین کی درخواست

علاوہ ازیں احتساب عدالتوں کے منتظم جج عبدالغنی سومرو نے بڑے پیمانے پر عوام کو دھوکا دینے اور ’بنیادی ضروریات پوری نہ کرنے‘ کے کیس میں 2 بلڈرز کی جانب سے نیب کے ساتھ ان کی پلی بارگین منظور کرنے کی درخواست کو نمٹا دیا۔

نیب نے 1992 میں شروع کیے گئے کمرشل پروجیکٹ کے تقریباً 1100 الاٹیز کو دھوکا دینے اور 2013 میں دوبارہ فروخت کرنے پر حاجی آدم جوکھیوں اور لال محمد کو حراست میں لیا تھا، اس زمین کی مالیت اندازاً ساڑھے 3 ارب روپے ہے۔

واضح رہے کہ فروری میں کیس کے تفتیشی افسر خالد خان نے قومی احتساب آرڈیننس 199 کی دفعہ 25 (بہ) کے تحت درخواست جمع کرائی تھی کہ ڈائریکٹر جنرل نیب نے ملزمان کی پلی بارگین منظور کرلی ہے لہٰذا عدالت سے بھی اس کی منظوری کی استدعا ہے۔

بعدازاں بدھ کو یہ معاملہ منتظم جج کے سامنے آیا جہاں یہ نشاندہی کی گئی کہ اسی طرح کی پلی بارگین کی درخواست کیس کے سابق تفتیشی افسر سرور احمد خان کی جانب سے بھی دائر کی گئی تھی لیکن عدالت نے 11 دسمبر 2019 کو لال محمد کی شریک ملزم آدم خان کی رہائی کی استدعا کے ساتھ پلی بارگین کی درخواست مسترد کردی تھی کیونکہ نیب نے ’نقصان‘ پہنچانے والا کام کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک ریاض کے داماد کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

انہوں نے کہا کہ عدالت نے معاملہ چیئرمین نیب کو بھیجا تھا کہ ایک کمیٹی قائم کریں جو ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور غلط اقدام کے لیے تفتیشی افسر سرور احمد خان کے خلاف انکوائر کرے، مزید یہ کہ نیب چیف کو کیس کے تتیشی افسر کو تبدیل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔

جج نے کہا تھا کہ عدالت نے 11 مارچ کو ملزمان کو ہدایت کی تھی کہ وہ تمام دعویداروں/الاٹیز کو آن بورڈ لیں اور ان کے درمیان پلی بارگین کی شرائط کو باہمی طور پر طے کریں۔

ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ رقم کی واپس ادائیگی کا جب بھی طریقہ کار اور شرح طے ہو اور اس کی ضمانت ملزمان سے لی جائے گی کیوں کہ ملزمان کی جانب سے جمع کروائے گئے مشترکہ بیان حلفی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، تاہم جج نے کہا کہ ان کی ہدایت پر من و عن عمل نہیں کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ مذکورہ بالا وجوہات کی روشنی میں یہ مشکل ہے کہ ان مسائل کے حل اور 11 مارچ کے عدالتی ہدایات کی مکمل تعمیل کے بغیر پلی بارگین منظور کی جائے۔

جج نے درخواست کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ مذکورہ بالا نشاندہی کیے گئے مسائل کو حل کے بعد ایک نئی درخواست دائر کریں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024