ٹرمپ کے جانے سے قبل 5ویں اسلامی ملک کے ساتھ تعلقات کی اُمید ہے، اسرائیلی وزیر
اسرائیلی حکومت کے ایک وزیر کا کہنا ہے کہ یہودی ریاست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت کے عہدے کو چھوڑنے سے قبل 5ویں مسلمان ملک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کررہی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس نے رواں سال اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے درمیان تعلقات معمول پر لانے میں ثالثی کا کردار ادا کیا ہے جبکہ مراکش آج اسرائیلی-امریکی وفد کی میزبانی کر رہا ہے جس سے تعلقات میں بہتری آنے کی اُمید ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور سعودی عرب کا واضح پیغام: جو بائیڈن اب کیا کریں گے؟
جب سوال کیا گیا کہ 20 جنوری کو ٹرمپ کے اقتدار سے جانے سے قبل پانچواں ملک اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرسکتا ہے تو اسرائیل کے علاقائی تعاون کے وزیر اوفیر اکونیس نے وائے نیٹ ٹی وی کو بتایا کہ 'ہم اس سمت میں کام کر رہے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'کسی اور ملک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں اعلان امریکا کرے گا' تاہم انہوں نے ملک کا نام لینے سے انکار کیا لیکن یہ ضرور بتایا کہ دو اہم امیدوار تھے۔
انہوں نے عمان کا امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایک خلیج میں ہے تاہم انہوں نے مزید بتایا کہ سعودی عرب اس میں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل سے پہلا کمرشل طیارہ مراکش میں اتر گیا
انہوں نے کہا کہ 'دوسرا اُمیدوار مشرق میں 'ایک مسلم ملک ہے جو چھوٹا نہیں ہے' تاہم وہ پاکستان نہیں ہے۔
سب سے زیادہ آبادی والے مسلمان ملک انڈونیشیا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرے گا جب تک کہ فلسطینی ریاست کا مطالبہ پورا نہیں ہوجاتا۔
فلسطینیوں کو خوف ہے کہ عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ایک طویل عرصے سے عرب مؤقف کو کمزور کردے گا جس میں عرب ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات کے بدلے اسرائیلیوں کو مقبوضہ علاقے سے دستبرداری اور فلسطینی ریاست کا اعتراف کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔