• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پی ٹی آئی کے وزرا کو آئین کہیں سے چھو کر بھی نہیں گزرا، سعید غنی

شائع December 23, 2020
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے - فائل فوٹو:ڈان نیوز
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے - فائل فوٹو:ڈان نیوز

سندھ کے وزیر تعلیم و مزدور سعید غنی کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزرا کو آئین کہیں سے چھو کر بھی نہیں گزرا اور یہ اپنی باتوں سے میری اس بات کو مزید تقویت دیتے ہیں۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تارکین وطن پاکستانی زلفی بخاری نے ہم پر الزام لگایا تھا، جس کی وضاحت دوں گا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ایک خط لکھا جو ہمارے مطابق آئین کی خلاف ورزی میں لکھا گیا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا مؤقف ہے کہ سی سی آئی کو بھی اختیار نہیں کہ وہ صوبائی قانون کو ختم کرسکے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ ایک آئینی فورم ضرور ہے مگر آئین میں اس کا کام کرنے کا طریقہ کار واضح درج ہے، اسی طرح سی سی آئی عدالت کے قانون کی بھی خلاف ورزی یا اسے ختم نہیں کرسکتی'۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی نے خود ورکرز ویلفیئر فنڈ، ای او بی آئی کو وفاق کے ماتحت کیا، زلفی بخاری

سعید غنی کا کہنا تھا کہ 'زلفی بخاری نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ میں نے جھوٹ بولا ہے اور انہوں نے ساتھ بیٹھ کر اس پر گفتگو کرنے کی بات کی، میں اس کے لیے تیار ہوں مگر میں بات آئین و قانون کے مطابق کروں گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'زلفی بخاری نے کہا کہ 2011 یا 2012 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران تو اس وقت ورکرز ویلفیئر فنڈ کو حکومت نے آئی پی سی کے تحت کردیا تھا، میرے پاس خط موجود ہے جو اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ 18ویں ترمیم کے بعد لیبر محکمے کے اثاثوں کی صوبوں میں تقسیم ہونی چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ بعد ازاں 2016 میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو کے دفتر سے خط لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ حکومت سندھ وفاقی حکومت سے دونوں محکموں کے اثاثے منتقل کرنے کی درخواست کر رہی ہے، وفاقی حکومت کو اس قانون پر عدالتوں سے اسٹے لینا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ کسی عدالت نے ہمارے قانون پر اسٹے آرڈر نہیں دیا۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ وزارت قانون و انصاف نے اپنا نظریہ دیا کہ ای او بی آئی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اثاثے صوبوں کو منتقل نہیں کیے جاسکتے تاہم انہیں اس معاملے پر قانون سازی کرنے اور اپنے ادارے قائم کرنے کی اجازت ہے تاہم وہ ان اثاثوں کو دعویٰ نہیں کرسکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'زلفی بخاری نے سندھ حکومت پر اس کا الزام عائد کیا مگر پنجاب حکومت کے لیبر ڈپارٹمنٹ نے رواں ماہ پنجاب کے وزارت قانون کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے مختلف اداروں کو خط لکھے ہیں لہذا اس پر اپنی رائے پیش کریں'۔

انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے اپنی رائے دی اور کہا کہ قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے اپنا قانون بنایا ہے جس کی وجہ سے ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس کا پنجاب میں اطلاق نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پنجاب کے سیکریٹری لیبر نے وفاقی سیکریٹری کو خط لکھا اور اس میں بھی یہی باتیں کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: 18ویں ترمیم کے بعد سے ای او بی آئی کے فنڈز میں مسلسل کمی

صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ 'ان کا مؤقف بھی وہی ہے جو سندھ حکومت کا مؤقف ہے، یہ سندھ حکومت پر الزام لگاتے ہیں اور کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'زلفی بخاری نے ایک اور جھوٹ بولا کہ سندھ کے وزرا اس معاملے کو اٹھاتے رہے مگر وزیر اعلیٰ اس پر رضامندی کا اظہار کرکے آئے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ سی سی آئی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ سندھ نے ای او بی آئی اور ڈبلیو ڈبلیو ایف قانون بنالیا ہے یہ ادارے ہمیں دے دیے جائیں۔

انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت کا یہی کہنا ہے کہ اثاثوں کو تقسیم کیا جانا چاہیے اور وزارت قانون و انصاف کا نظریہ بھی یہی ہے کہ جھگڑا صرف اثاثوں کی تقسیم کا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ایف بی آر نے جو خط لکھا ہے وہ آئین کے کونسے آرٹیکل کے تحت ہے اور کہا کہ 'یہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے'۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ 'پنجاب حکومت نے 2012 میں سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اس میں انہوں نے صرف اثاثوں کو تقسیم کرنے کا ہی کہا تھا'۔

مزید پڑھیں: ای او بی آئی میں اربوں کی چوری کی ذمے دار حکومت: سپریم کورٹ

ان کا کہنا تھا کہ 'آئین کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، راستہ تلاش کرنا چاہیے، وفاق نے 172 ارب روپے ورکرز ویلفیئر فنڈ کے دبا کر بیٹھی ہے وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو دیا جانا چاہیے'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ تاریخ کا بہت بڑا جبر ہے کہ زلفی بخاری مجھے مزدوروں کو حقوق کے حوالے سے سمجھائیں، میں گورننگ باڈی کا حصہ رہ چکا ہوں، انہیں تو کچھ نہیں پتا، جس زمین کے سودے کا ذکر وہ کر رہے تھے، نیب نے اس کی انکوائری کی تھی جس پر مجھے بھی طلب کیا گیا تھا، اس گورننگ باڈی کے منٹس میں لکھا ہے کہ میں نے اس زمین کو خریدنے کی مخالفت کی تھی'۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ 'احسن راجا اس کام کو سر انجام دینے والے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اس زمین کا سودا ہو، نیب نے اس کام کو کرنے والے کو گواہ بنا دیا تھا اور دیگر کو جیل میں ڈال دیا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'وفاقی حکومت غیر قانونی طور پر کلیکشن کر رہی ہے جو ہم نہیں کرنے دیں گے'۔

صوبائی وزیر نے دعویٰ کیا کہ سندھ حکومت پاکستان کی واحد حکومت ہے جو جنوری میں سوا 6 لاکھ سے زائد مزدوروں کو مزدور کارڈ دینے جارہے ہیں اور آگے جاکر ہم انفارمل سیکٹر اور سیلف ایمپلائڈ لوگوں کو بھی یہ کارڈ فراہم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ مزدور کارڈ بی آئی ایس پی کارڈ کی طرح مثالی بنے گی۔

سعید غنی کا کہنا تھا کہ 'اِنہوں نے کہا کہ ہم نے ورکرز کو اور ایمپلائرز کو بلایا اور وہ سب اس کے خلاف ہیں، ورکرز کے نمائندوں کی دستخط شدہ قرارداد ہمارے پاس موجود ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سب یہ کہہ بھی دیں تو آئین کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی، آئین کے تحت جو صوبوں کو حقوق ملنے ہیں وہ ملیں گے آپ نے صرف اثاثے تقسیم کرنے ہیں اور کچھ نہیں کرنا'۔

سوالات کی جانب جانے سے قبل انہوں نے کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ میں نے جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ زلفی بخاری کو سمجھ نہیں آئی ہوں گی، میں سامنے بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہوں وہ جب وقت بتائیں گے میں چلا جاؤں گا'۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا زلفی بخاری صاحب اجلاس طلب کرتے ہیں اور بلاتے ہیں تاہم میں اس میں نہیں جاتا کیونکہ میں یہ پیغام پہنچا چکا ہوں کہ معاون خصوصی منتخب نمائندوں کے اجلاس کی صدارت نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں: ای او بی آئی پنشنرز کی پنشن میں 20 فیصد اضافہ

ان کا کہنا تھا کہ جو قانون سندھ اور پنجاب اسمبلی نے بنایا ہے اسے کسی عدالت نے ختم نہیں کیا اور ہم اس کے مطابق کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ یہ نالائق اور نااہل ہیں کیونکہ انہیں حکومت چلانے کا معلوم ہی نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ اس وقت عدالت میں ہے اور جس معاملے پر صوبے اور وفاق میں تنازع ہو اور سی سی آئی میں بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اسے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس یا عدالت حل کرسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس معاملے پر پنجاب اور سندھ کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں ہے، وفاقی حکومت اس تقسیم کو روکنے کے لیے ایف بی آر سے کلیکشن کروارہی ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024