برطانوی وزیراعظم سے کشمیر سے متعلق اپنے وعدے کے احترام کا مطالبہ
مظفرآباد: برطانیہ میں قائم حقوق اور وکالت کی تنظیم نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے نئی دہلی کے دورے کے دوران 1947 میں برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کی جانب سے جموں و کشمیر کی عوام اور حکومت پاکستان سے کیے گئے وعدے کا احترام کریں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ اور چند دیگر مطالبات اقوام متحدہ میں ایک مشاورتی حیثیت رکھنے والے جموں و کشمیر کونسل برائے ہیومن رائٹس (جے کے سی ایچ آر) نے کشمیری عوام کی جانب سے بورس جانسن کو لکھے گئے ایک خط میں کیے جس کی ایک نقل ڈان کو ای میل کے ذریعے موصول ہوئی۔
جے کے سی ایچ آر کے صدر ڈاکٹر سید نذیر گیلانی نے لکھا کہ 'آپ کا بھارت کا دورہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے اور آگے بڑھانے کی کوشش ہے، برطانوی کشمیریوں کو پوری اُمید ہے کہ آپ بھارتی حکومت پر زور دیں گے کہ وہ 26 اکتوبر 1947 کو جموں و کشمیر کی عوام سے، 27 اکتوبر 1947 کو برطانوی وزیراعظم، 31 اکتوبر کو حکومتِ پاکستان سے 15 جنوری 1948 اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنی افواج کی واپسی اور اقوام متحدہ کے زیر نگرانی رائے شماری کے وعدے کا احترام کرے'۔
مزید پڑھیں: جموں و کشمیر کو ’تقسیم کرنے کی کوشش‘ کےخلاف ’کشمیر بچاؤ‘ مہم کا اعلان
25 جولائی 2001 کو نیویارک میں اقتصادی اور سماجی کونسل کے 42 ویں مکمل اجلاس میں جے کے سی آر آر کو خصوصی مشاورتی حیثیت کے لیے برطانیہ، شمالی آئرلینڈ ، بھارت، پاکستان اور دیگر ممبران نے ووٹ دیا تھا۔
جون 1993 میں ویانا میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس میں بھی اسے دنیا کے غیر نمائندہ لوگوں اور شہریوں کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
نذیر گیلانی نے بورس جونسن کو بتایا کہ جے کے سی ایچ آر نے جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ریفرنڈم کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے دائرہ کار کے ساتھ ساتھ بھارت اور پاکستان کے درمیان امن اور مشغولیت کی بھی حمایت کی ہے اور ان تک انسانی حقوق، خاص طور پر ان لوگوں پر، کے فروغ اور تحفظ کی حمایت کی ہے بالخصوص 21 اپریل 1948 کو سلامتی کونسل کی قرارداد 47 دی گئی ضمانت کی۔
برطانوی وزیر اعظم آئندہ ماہ نئی دہلی کا دورہ کرنے والے ہیں جو ان کے جی 7 گروپ کو 10 سرکردہ جمہوری جماعتوں کے وسیع تر گروپ میں تبدیل کرنے کے منصوبے کے تحت ہے۔
وہ بھارت کے 'یوم جمہوریہ' کے مہمان خصوصی بھی ہوں گے۔
نذیر گیلانی نے بورس جانسن کو یاد دلایا کہ مارچ 1959 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے سری نگر کے دورے کے 61 سال بعد جموں و کشمیر کے عوام کی سیاسی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لینے کی بات اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں تنازع کشمیر، اسلاموفوبیا کے خلاف قراردادیں منظور
جون 2018 اور جولائی 2019 میں ہمالیائی خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اطلاعات پر دونوں نے یہ سفارش کی ہے کہ بھارت اور پاکستان کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا احترام کرنا چاہیے اور بھارت کو اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو بہتر بنانے کی تاکید کرنا چاہیے۔
تاہم 5 اگست 2019 کو بھارت نے اپنی فوجی موجودگی کو 5 لاکھ اور 7 لاکھ سے بڑھا کر 9 لاکھ کر دیا تھا، اس طرح دونوں یو این ایچ سی ایچ آر کی رپورٹس میں کی جانے والی سفارشات کی خلاف ورزی کی گئی اور 21 اپریل 1948 کے سلامتی کونسل کی قرارداد 47 میں مذکور تین اصولوں کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔
انہوں نے 5 اگست 2019 کے بعد کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ 'جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک فوجی محاصرے میں رکھا گیا ہے اور بھارت دوبارہ قبضہ کی جانب جارہا ہے، ریاست دہلی کے ایجنٹ اور غیر کشمیریوں کے ذریعے چل رہی ہے، غیر کشمیریوں کو متنازع ریاست میں آباد کے قابل بنانے کے لیے کشمیری عوام کے حقوق کی حفاظت کرنے والا 93 سالہ پرانے قانون کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے'۔
نذیر گیلانی نے کہا کہ برطانیہ 26 اکتوبر 1947 کی بھارت یقین دہانی کے گواہ ہیں کہ جموں و کشمیر میں جیسے ہی امن و امان کی صورتحال بحال ہوگی وہ اپنی فوج واپس بلائیں گے اور کشمیری عوام کے لیے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ریفرنڈم کا حق حاصل ہوگا۔