دنیا کی ایک چوتھائی آبادی 2022 تک کووڈ ویکسینز حاصل نہیں کرسکے گی، تحقیق
دنیا کی لگ بھگ ایک چوتھائی آبادی کو نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز تک رسائی 2022 سے قبل نہیں مل سکے گی۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں بتائی گئی۔
امریکا کی جونز ہوپکنز بلومبرگ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں کووڈ 19 ویکسینز کے پری آرڈرز کا تجزیہ کیا گیا جو ریگولیٹری منظوری سے قبل مختلف ممالک نے دیئے۔
15 نومبر 2020 تک متعدد ممالک نے 13 مختلف کمپنیوں کی ویکسینز کے 7 ارب 48 کروڑ ڈوز اپنے لیے مختص کرالیے تھے۔
ان میں سے 51 فیصد ڈوز امیر ممالک نے بک کرائے تھے جو عالمی آبادی کے 14 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں غریب اور متوسط ممالک ویکسینز کے حصول میں پیچھے رہ جایں گے حالانکہ ان میں دنیا کی 85 فیصد سے زیادہ آبادی مقیم ہے۔
اگر یہ تمام ویکسینز کامیاب ہوگی تو 2021 کے اختتام تک ان کو تیار کرنے والی کمپنیاں 5 ارب 96 کروڑ ڈوز تیار کرسکیں گی، جن کی قیمتیں 6 ڈالر سے 74 ڈالر تک ہوگی۔
اتنے ڈوز میں سے 40 فیصد غریب اور متوسط ممالک کو دتیاب ہوں گے، تاہم اس کا انحصار اس پر ہوگا کہ امیر ممالک اپنی خریدی گئی ویکسین کو دیگر سے شیئر کرتے ہیں اور امریکا و روس کس حد تک عالمی کوششوں کا حصہ بنتے ہیں۔
محققین نے اس نکتے کی جانب بھی توجہ دلائی کہ اگر تمام ویکسین کمپنیاں زیادہ سے زیادہ ڈوز تیار کرنے میں بھی کامیاب رہی تو بھی عالمی آبادی تک ویکسینز کی رسائی 2022 تک ممکن نہیں ہوسکے گی۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح امیر ممالک کووڈ 19 کی مستقبل کی سپلائیز کو حاصل کررہے ہیں، جبکہ باقی ممالک تک ان کی رسائی غیریقینی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتوں اور کمپنیوں کو کووڈ 19 ویکینز کی مساوی بنیادوں پر فراہمی کی یقین دہانی کرانی چاہیے اور اس حوالے سے شفافیت اور احتساب کا خیال رکھا جانا چاہیے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے بی ایم جے میں شائع ہوئے۔
اس جریدے میں امریکا اور چین کے ماہرین کی ایک تحقیق میں شائع ہوئی جس میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ عالمی سطح پر کتنی آبادی اس ویکسین کو استعمال کے لیے تیار ہوجائے گی۔
تحقیق میں تخمینہ لگایا گیا کہ دنیا بھر میں 3 ارب 70 کروڑ سسے زیادہ بالغ افراد (مجموعی آبادی کا 68 فیصد حصہ) کووڈ 19 ویکسین لینے کے رضامند ہوں گے۔
تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین کی تیاری کی طرح اس کی فراہمی کے پروگرام بھی چیلنج سے بھرپور ثابت ہوں گے۔
یہ دونوں تحقیقی رپورٹس مشاہداتی تھیں اور محققین نے تسلیم کیا کہ ان کے تجزیوں کے نتائج میں تفصیلات نامکمل ہوسکتی ہیں۔