• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

جاپان: 9 افراد کی جان لینے والے 'ٹوئٹر قاتل' کو موت کی سزا

شائع December 16, 2020
جاپانی شخص پولیس کی گاڑی میں اپنا منہ چھپاتے ہوئے—تصویر:
جاپانی شخص پولیس کی گاڑی میں اپنا منہ چھپاتے ہوئے—تصویر:

ٹوکیو کی عدالت نے 'ٹوئٹر قاتل' کے نام سے معروف ایک جاپانی شخص کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ملنے والے لوگوں کے قتل اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے پر سزائے موت سنا دی۔

ڈان اخبار میں فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 30 سالہ تاکاہیرو شیرائیشی نے اپنا شکار بننے والے نوجوانوں کے قتل اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا اعتراف کیا جن میں سے ایک خاتون بھی تھیں۔

جاپانی شخص کے طریقہ واردات سے متعلق یہ بات سامنے آئی کہ وہ ان سوشل میڈیا صارفین کو ہدف بنانا تھا جو خود اپنی زندگی لینے سے متعلق پوسٹ کرتے تھے۔

مزید پڑھیں: کورونا کے معاشی اثرات: جاپان میں خودکشی کی شرح 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

تاکاہیرو شیرائیشی انہیں کہتا تھا کہ وہ ان کے منصوبے میں مدد کرسکتا ہے یا یہاں تک کہ ان کے ساتھ مر سکتا ہے۔

ادھر ان کے وکلا نے اعتراض اٹھایا کہ ان کے موکل کو سزائے موت کے بجائے قید کی سزا دینی چاہیے کیونکہ ان کے شکار بننے والوں کی عمریں 15 سے 26 سال کے درمیان تھیں اور وہ سوشل میڈیا پر خود کی جان لینے کے خیالات کا اظہار کرچکے تھے اور وہ مرنے پر رضامند تھے۔

تاہم پبلک براڈکاسٹر این ایچ کے کا کہنا تھا کہ جج نے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے 2017 جرائم پر انہیں سزائے موت سنائی اور اسے 'ہوشیار اور ظالمانہ' قرار دیا۔

این ایچ کے نے رپورٹ کیا کہ جج کا کہنا تھا کہ 9 متاثرین میں سے کسی نے بھی مرنے کے لیے خاموش رضامندی سمیت کسی طرح کی رضامندی کا اظہار نہیں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی سنگین بات ہے کہ 9 افراد کی جانیں لے لی گئیں۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ متاثرین کی عزت کو پامال کیا گیا، مزید یہ کہ تاکاہیرو شیرائیشی نے ایسے لوگوں کو شکار بنایا جو 'ذہنی طور پر کمزور' تھے۔

جج کی جانب سے کہا گیا کہ یہ کیس سوشل نیٹ ورکس پر سخت کنٹرول کا مطالبہ کرتا ہے، اس نے معاشرے میں بہت بے چینی پیدا کی ہے کیونکہ سوشل نیٹ ورکس عام طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ قتل کی ان وارداتوں نے بین الاقوامی توجہ بھی مبذول کروائی تھی اور جاپان نے اس کیس کو قریب دیکھا تھا۔

علاوہ ازیں جب مجرم سے پوچھا گیا کہ آیا اس نے فیصلہ سن لیا تو سفید ماسک پہنے تاکاہیرو شیرایشی ساکن کھڑا رہا اور صرف اتنا کہا کہ 'میں سمجھ گیا ہوں'۔

اس موقع پر مذکورہ کیس پر متاثرین کے خاندان کے اراکین نے جذباتی طور پر اس درد کو بیان کیا جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا۔

جاپانی شخص کی جانب سے قتل کی گئی ایک 25 سالہ خاتون کے بھائی نے کہا کہ جب انہوں نے قاتل کے اعترافی بیان سنا تو ان کا 'دل مر' گیا۔

این ایچ کے نے بتایا کہ ایک اور 17 سالہ متاثرہ فرد کے والد نے موت کی سزا کو 'مناسب' قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا نہیں لگا کہ اسے (مجرم) کو افسوس ہے بلکہ ایسا لگا کہ مجھے کوئی بار بار تیز چاقو کے ساتھ تکلیف پہنچا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'مجھے لگتا ہے کہ میں انتقال لینا چاہتا ہوں لیکن سوگوار خاندان کچھ نہیں کرسکتے، مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے اپنے غصے کو ختم کروں'۔

واضح رہے کہ مذکورہ شخص کو پولیس نے ایک 23 سالہ خاتون کی گمشدگی کی تحقیقات کے دوران 3 سال قبل حراست میں لیا تھا، جنہوں نے مبینہ طور پر ٹوئٹ کی تھیں کہ وہ خود کو مارنا چاہتی ہیں۔

2017 میں خاتون کے لاپتا ہونے کے بعد ان کے بھائی نے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کی اور وہاں انہیں ایک مشکوک ہینڈل ملا جو انہیں تاکاہیرو شیرائیشی کی رہائش گاہ لے گیا جہاں انہیں ہیلوون کی صبح ایک خوفناک گھر ملا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وہاں 9 بوسیدہ لاشیں تھیں جس کے 240 ہڈیوں کے حصے کولرز اور ٹول باکسز میں موجود تھے جنہیں بلیوں کے فضلے کے ساتھ ملا کر جگہ جگہ پھیلایا گیا تھا تاکہ شواہد چھپائے جاسکیں۔

تاکاہیرو شیرائیشی کی جانب سے اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ ماہ میں اپنے جرم کا اعتراف کرنے اور ہائیکورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے سزا بھگتنے کے لیے تیار تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جاپانی بچوں میں خودکشی کا رجحان 30 سال کی بلند ترین سطح پر

تاہم یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ مذکورہ شخص سزا پر اپیل کے فیصلے کو ترک کرنے پر قائم رہے گا یا نہیں۔

واضح رہے کہ جاپان دنیا کے ان چند ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے جہاں سزائے موقت برقرار ہے اور وہاں سزائے موت کے 100 سے زیادہ قیدی ہیں اور اس کے لیے حمایت زیادہ ہے۔

تاہم سزا اور اس پر عمل درآمد کے دوران برسوں گزرجاتے ہیں اور گزشتہ برس دسمبر میں ایک چینی شخص کو 4 افراد کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔

وہی تاکاہیرو شیرائیشی کے جرائم نے جاپان میں پھر سے خودکشی اور اس کو اپنانے والوں کی مدد سے متعلق بحث چھیڑ دی ہے۔

یاد رہے کہ جاپان 7 صنعتی مماملک میں سے سب سے زیادہ خودکشی کی شرح رکھتا ہے جہاں سالانہ 20 ہزار سے زیادہ لوگ اپنی زندگیاں لے لیتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024