بحریہ ٹاؤن کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی 3 سال کیلئے مؤخر کرنے کی درخواست مسترد
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے اراضی کی مد میں ادا کی جانے والی ماہانہ اقساط 3 سال کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
عدالت عظمیٰ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن سے متعلق کیس کی سماعت کی جہاں گزشتہ روز جمع کروائی گئی درخواست کا معاملہ زیر غور آیا۔
دوران سماعت بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور اس وبا کے پوری دنیا کی معیشت پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وبا سے دنیا بھر کے کاروبار ختم ہوچکے ہیں جبکہ اقتصادی رپورٹ کے مطابق لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن نے زمین کی رقم کی ادائیگی 3 سال کیلئے مؤخر کرنے کی استدعا کردی
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ معیشت دوبارہ ٹریک پر آچکی ہے، ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ کورونا وائرس کا بحریہ ٹاؤن کے کاروبار پر کیا منفی اثر پڑا، دنیا کے نہیں بحریہ ٹاؤن کے اعداد و شمار دکھائیں۔
اس پر وکیل نے کہا کہ کووڈ 19 کی وجہ سے ہمارا انکم فلو (آمدنی کا بہاؤ) کم ہوگیا ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کراچی پروجیکٹ تو بحریہ ٹاؤن پہلے ہی فروخت کرچکی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کوئی بینک تو نہیں، جہاں مذاکرات کر کے رعایت لی جائے۔
بعد ازاں عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اقساط کو تین سال کے لیے مؤخر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ تفصیلی فیصہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کراچی (بی ٹی ایل کے) نے عالمی وبا کووڈ 19 سے متعلق کسادبازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ کے جاری کردہ ادائیگی پلان کو منجمد کرنے کا کہتے ہوئے درخواست کی تھی کہ ڈھائی ارب روپے کی ماہانہ قسطوں کی ادائیگی 3 برسوں یعنی ستمبر 2023 تک مؤخر کی جائے۔
اس سلسلے میں بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کراچی اور اس کے مالک ملک ریاض حسین کی طرف سے سینئر وکیل سید علی ظفر نے درخواست دائر کی تھی۔
واضح رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) سے 16 ہزار 896 ایکڑز اراضی کی خریداری کے لیے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے ادائیگی کی پیشکش قبول کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ پیشکش اپنے 4 مئی 2018 کے اس فیصلے پر عملدرآمد کے دوران کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایم ڈی اے کو دی گئی زمین اور اس کا نجی لینڈ ڈیولپرز بحریہ ٹاؤن کے ساتھ تبادلہ غیرقانونی تھا۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی نئی درخواست میں کووڈ 19 وبا کے پاکستان اور دنیا بھر کی ملٹی نیشنلز پر پڑنے والے بڑے اثرات کو بیان کیا گیا تھا اور یہ مؤقف اپنایا تھا کہ عدالت کے پہلے حکم کی تعمیل میں بحریہ ٹاؤن کم ہوتے بیلنس کی بنیاد پر جمع کروائی گئی پیشگی رقم پر حاصل ایک ارب 20 کروڑ روپے کے مارک اپ کے علاوہ پہلے ہی 57 ارب روپے ادا کرچکا ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ڈھائی ارب روپے کی ماہانہ ادائیگی کے لیے بحریہ ٹاؤن کو مہینے میں اوسطاً 25 کام کے دنوں کی بنیاد پر یومیہ 10 کروڑ روپے کمانے ہوتے ہیں، جو عام حالات میں بھی ایک بہت بڑا کام ہے اور بحریہ ٹاؤن کراچی اسے پورا کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کہاں استعمال ہوگا؟ سپریم کورٹ نے کمیشن بنادیا
تاہم درخواست کے مطابق عالمی وبا نے درخواست گزار کی جانب سے چلائے جانے والے کاروبار کو متاثر کیا ہے کیونکہ اس وبا سے منسلک معاشی سرگرمیوں کی بندش کے نتیجے میں منفی نمو غیریقینی کسادبازاری کا سبب بنی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر سمیت پاکستان کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا اور یہ جاری ہے۔
درخواست میں بتایا گیا تھا کہ فروخت اور پلاٹوں/گھروں کی قیمتوں میں نمایاں کمی، عام طور پر قوت خرید کے ختم ہونے اور تعمیراتی سرگرمیوں اورمتعلقہ صنعتوں کو روکنے کے پیش نظر بھی بحریہ ٹاؤن کو اپنے تقریباً 6 لاکھ اراکین اور 53 ہزار ملازمین کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
درخواست میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ انصاف کی مکمل فراہمی کے تناظر میں ڈویلپر کو زیادہ وقت (کم از کم 3 سال) ادائیگی کے لیے دیے جائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو اوردیوالیہ نہ ہو۔