• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

جمہوریت کیلئے حکومت سندھ اور قومی اسمبلی کی قربانی دینے کو تیار ہیں، بلاول

شائع December 16, 2020
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہمیں مل کر اس سلیکٹڈ نظام کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور ہم جمہوریت کے لیے سندھ حکومت اور نیشنل اسمبلی کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مزاحمت اور تحریکیں چلانے کی ایک تاریخ ہے اور اگر اس لانگ مارچ کو کامیاب ہونا ہے تو وہی لوگ جو ضیا کی آمریت کا مقابلہ کرتے تھے، جو مشرف کی آمریت کا مقابلہ کرتے تھے ان کو مل کر اس سلیکٹڈ نظام کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: 'اختلافات دور' کرنے کیلئے بلاول بھٹو زرداری کی مصطفیٰ نواز کھوکھر سے آج ملاقات متوقع

انہوں نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں جو جوش ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور یہ حکومت اور اس کے نمائندے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عوام کو متحرک رکھنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے اور ہمارا مطالبہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ 31 جنوری تک عمران خان کو مستعفی ہونا پڑے گا۔

بلاول نے کہا کہ 16 دسمبر ہماری تاریخ میں بہت بھاری دن ہے، مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا اور 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کا حملہ کیا گیا اور وہ اب بھی ہماری یادوں میں تازہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصاً اس حکومت نے جس طریقے سے اے پی ایس کے بچوں اور والدین کو لاوارث چھوڑا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 31 دسمبر سے پہلے سارے استعفے میری جیب میں ہوں گے، بلاول بھٹو

ان کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے ان کے دور میں اے پی ایس واقعے میں ملوث احسان اللہ احسان جیل سے بھاگا ہے، ہم سمجھتے ہیں عمران خان اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ہم ایمنسٹی نہیں دیں گے، چھوڑیں گے نہیں کیونکہ یہ دنیا کے سامنے ہے کہ عمران خان نے دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کو چھوڑنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے بند کرنا ہے تو جمہوری قوتوں کو بند کرنا ہے، سیاسی مخالفین کو بند کرنا ہے، بلاگرز اور میڈیا مالکان کو بند کرنا ہے مگر دہشت گردوں اور اس ملک کے دشمنوں کے خلاف ایکشن لینے کی ہمارے وزیراعظم میں ہمت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اے پی ایس کی برسی کے دن وزیراعظم کا استعفیٰ اس لیے بھی مانگتے ہیں کہ اس نالائق، نااہل اور ناجائز وزیر اعظم کے دور میں اے پی ایس کے بچوں کے قاتل کو آزادی ملی ہے اور یہ حکومت ان بچوں کے قاتل کو جیل میں ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کررہی۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی صورت میں جس مشکلات کا سامنا اس ملک کے عوام کررہے ہیں، حکومت اس میں کمی کے لیے کوئی کوشش نہیں کررہی۔

مزید پڑھیں: استعفوں کی بات آئی تو پیپلزپارٹی کا اپنا مؤقف ہے، شبلی فراز

ان کا کہنا تھا کہ چینی، آٹے اور پیٹرول کے بحران کے بعد اب سردیوں کے مہینے میں ہم گیس کے بحران کی بھی توقع کررہے ہیں، ایسا نہیں کہ ہم اس بحران سے نمٹ نہیں سکتے تھے بلکہ یہ اس حکومت کی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے عوام ضرورت سے زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، آج پاکستان کے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ مہنگائی کی شرح میں ہم پورے خطے میں سب سے آگے ہیں، ہماری ترقی کی شرح کی بات کی جائے تو ہم پورے خطے سے پیچھے ہیں، ہماری مہنگائی کی شرح افغانستان سے زیادہ اور ترقی کی شرح افغانستان سے بھی کم ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ یہ اگر پاکستان کی تبدیلی ہے اور عوام نے اس حکومت کی نااہلی کے بوجھ کو اٹھانا ہے تو پورے پاکستان کی آواز ہے کہ عمران خان کو جانا پڑے گا۔

شہباز شریف سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارے ان سے ملنے کا مقصد تعزیت کرنا تھا، یقیناً دو سیاستدان ملتے ہیں تو سیاست پر بات تو ہوتی ہی ہے تو ہمارا زور اتحاد اور ساتھ مل کر چلنے پر تھا اور پی ڈی ایم میں تمام طاقتوں کا یہ مطالبہ ہے کہ 31 جنوری تک عمران خان مستعفی ہو۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا ملتان کا جلسہ کچھ وزیروں کے لیے ہضم کرنا مشکل ہے اور جہاں تک سینیٹ الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی کی بات ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: استعفے ہمارے ایٹم بم ہیں، اس کے استعمال کی حکمت عملی مل کر اپنائیں گے، بلاول

انہوں نے کہا کہ شو آف ہینڈز اور وقت میں تبدیلی کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے اور حکومت جانتی ہے کہ ان کے اراکین صوبائی اسمبلی ان کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں، حکومت جانتی ہے کہ ان کو سینیٹ میں اکثریت نہیں ملنے والی اور وہ ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ سینیٹ میں دھاندلی کر کے زبردستی اپنی اکثریت حاصل کر سکیں۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مجھے اُمید ہے کہ ہماری عدالت وہ اس قسم کے متنازع اقدامات اٹھانے کی اجازت نہیں دے گی کیونکہ اس معاملے پر ہمارا آئین بالکل واضح ہے اور عدالت کو غیرجمہوری قدم میں گھسیٹنے کی کوشش میں حکومت ناکام رہے گی۔

استعفوں کے نتیجے میں سندھ حکومت بھی گرنے کے سوال پر بلاول نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے 31 دسمبر تک تمام جماعتوں کی قیادت کے پاس استعفے جمع ہوں گے، اگر اس ملک میں جمہوریت کے لیے سندھ حکومت اور نیشنل اسمبلی قربانی دینا پڑی تو ہم وہ قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔

تیسری قوت کی جانب سے ان احتجاجوں کا فائدہ اٹھانے کے حوالے سے سوال کے جواب میں بلاول نے کہا کہ ہماری تاریخ میں ایسا ہوا ہے اور ہماری پارٹی کو اس بات کا احساس ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم جو بھی قدم اٹھائیں گے اس کو اس حکمت عملی سے استعمال کرنا چاہیں گے کہ ملک کو اس مشکل صورتحال میں نہیں ڈالا جائے جس سے ہمیں مل کر 20 سال جدوجہد چلانی پڑے اور اس سے ملک اور اداروں کو نقصان پہنچے گا لہٰذا ہم ملک اور اداروں کو اس نقصان سے بچانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ڈیڈ لائن انتہائی موزوں ہے اور ہم پورے پاکستان کے لیے خود کو ایک ذمے دار قوت کے طور پر خود کو پیش کررہے ہیں، ہم ان کو موقع دے رہے ہیں کہ جو بحران سب کو نظر آ رہا ہے اس کا واحد حل یہ ہے کہ 31 جنوری تک یہ صاحب خود مستعفی ہو جائیں ورنہ دما دم مست قلندر ہو گا جس سے اپوزیشن کو فائدہ اور حکومت کو نقصان ہی نقصان ہو گا۔

مزید پڑھیں: سلیکٹرز سن لو! مذاکرات کا وقت ختم ہوا، ہم اسلام آباد آرہے ہیں، بلاول بھٹو

ایک اور سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ہمیشہ مزاحمت کی سیاست کی لیکن کامیابی اور جمہوریت نظام میں ترقی لانے کے لیے مذاکرات کے ذریعے جمہوریت کے لیے کامیابیاں بھی حاصل کی تھیں، ہم دونوں طریقوں سے بات چیت پر یقین رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس لیے کہتے ہیں کہ بات چیت کا وقت گزر گیا ہے کیونکہ ہم استعفیٰ لے رہے ہیں، تحریک چلا رہے ہیں، اس وقت ہم کسی سے بات چیت نہیں کر سکتے، ہاں عمران خان چلے جائیں اور اپنا عہدہ چھوڑیں پھر خلا پیدا ہو گا اور ہم حل نکال سکتے ہیں لیکن اس نطام میں کوئی گنجائش نہیں کہ پی ڈی ایم کی کوئی بھی جماعت ان قوتوں سے بات چیت کر سکے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024