بحریہ ٹاؤن نے زمین کی رقم کی ادائیگی 3 سال کیلئے مؤخر کرنے کی استدعا کردی
اسلام آباد: بحریہ ٹاؤن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کراچی (بی ٹی ایل کے) نے عالمی وبا کووڈ 19 سے متعلق کساد بازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ کے جاری کردہ ادائیگی پلان کو منجمد کرنے کا کہتے ہوئے درخواست کی ہے کہ ڈھائی ارب روپے کی ماہانہ قسطوں کی ادائیگی 3 برسوں یعنی ستمبر 2023 تک مؤخر کی جائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ بحریہ ٹاؤن کراچی کی درخواست پر آج سماعت کرنے جارہا ہے۔
بحریہ ٹاؤن کراچی کو بظاہر ہر مہینے کی 7 تاریخ کو ڈھائی ارب روپے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کراچی اور اس کے مالک ملک ریاض حسین کی طرف سے سینئر وکیل سید علی ظفر نے درخواست دائر کی۔
مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن تصفیہ فنڈ کہاں استعمال ہوگا؟ سپریم کورٹ نے کمیشن بنادیا
واضح رہے کہ 21 مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) سے 16 ہزار 896 ایکڑز اراضی کی خریداری کے لیے بحریہ ٹاؤن کی 460 ارب روپے ادائیگی کی پیشکش قبول کی تھی۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ پیشکش اپنے 4 مئی 2018 کے اس فیصلے پر عملدرآمد کے دوران کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ایم ڈی اے کو دی گئی زمین اور اس کا نجی لینڈ ڈیولپرز بحریہ ٹاؤن کے ساتھ تبادلہ غیرقانونی تھا۔
نئی درخواست میں کووڈ 19 وبا کے پاکستان اور دنیا بھر کی ملٹی نیشنلز پر پڑنے والے بڑے اثرات کو بیان کیا گیا۔
اس میں کہا گیا کہ عدالت کے پہلے حکم کی تعمیل میں بحریہ ٹاؤن کم ہوتے بیلنس کی بنیاد پر جمع کروائی گئی پیشگی رقم پر حاصل ایک ارب 20 کروڑ روپے کے مارک اپ کے علاوہ پہلے ہی 57 ارب روپے ادا کرچکا ہے۔
درخواست کے مطابق ڈھائی ارب روپے کی ماہانہ ادائیگی کے لیے بحریہ ٹاؤن کو مہینے میں اوسطاً 25 کام کے دنوں کی بنیاد پر یومیہ 10 کروڑ روپے کمانے ہوتے ہیں، جو عام حالات میں بھی ایک بہت بڑا کام ہے اور بحریہ ٹاؤن کراچی اسے پورا کر رہا ہے۔
مذکورہ درخواست میں کہا گیا کہ تاہم عالمی وبا نے درخواست گزار کی جانب سے چلائے جانے والے کاروبار کو متاثر کیا ہے کیونکہ اس وبا سے منسلک معاشی سرگرمیوں کی بندش کے نتیجے میں منفی نمو غیریقینی کساد بازاری کا سبب بنی اور ریئل اسٹیٹ سیکٹر سمیت پاکستان کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچا اور یہ جاری ہے۔
درخواست میں بتایا گیا کہ فروخت اور پلاٹوں/گھروں کی قیمتوں میں نمایاں کمی، عام طور پر قوت خرید کے ختم ہونے اور تعمیراتی سرگرمیوں اور متعلقہ صنعتوں کو روکنے کے پیش نظر بھی بحریہ ٹاؤن کو اپنے تقریباً 6 لاکھ اراکین اور 53 ہزار ملازمین کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کا 'تصفیہ فنڈ' خزانے میں جمع کروانے کیلئے حکومت کی درخواست
ڈیولپر کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ تیسرے فریق، بحریہ ٹاؤن کے اراکین، سپلائر، کانٹریکٹرز اور ملازمین کو ادائیگی کے لیے ہر مہینے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے کیونکہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کی دیکھ بھال اور بحالی کے لیے مقررہ اور کثیر اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس ادائیگی میں یوٹیلیٹرز کے اخراجات، سائٹ آپریشنل اخراجات، تیل کے اخراجات، رہائشی منصوبے میں صاف ستھرے ماحول کی دیکھ بھال، سیکیورٹی، ترقی اور فلاح و بہبود کے اخراجات بھی شامل ہیں۔
درخواست میں یہ استدعا کی گئی کہ انصاف کی مکمل فراہمی کے تناظر میں ڈیولپر کو زیادہ وقت (کم از کم 3 سال) ادائیگی کے لیے دیے جائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور دیوالیہ نہ ہو۔
ساتھ ہی درخواست میں کہا گیا کہ ڈیولپر 460 ارب روپے کی رقم کی ادائیگی کے لیے پرعزم ہے۔
یہ خبر 16 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
تبصرے (1) بند ہیں