• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

پی ڈی ایم کا الٹی میٹم مسترد، وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیں گے، وزیر خارجہ

شائع December 15, 2020
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے اور اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جائیں گی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک انصاف کی نظر میں یہ ایک بے معنی سی سرگرمی تھی، ایک حجت تمام کی گئی کیونکہ وہ اعلان کر چکے تھے کہ 13 تاریخ کو ہم لاہور میں ایک تاریخ ساز جلسہ منعقد کریں گے۔

مزید پڑھیں: استعفے ہمارے ایٹم بم ہیں، اس کے استعمال کی حکمت عملی مل کر اپنائیں گے، بلاول

انہوں نے کہا کہ میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ پی ڈی ایم کی صفوں میں استعفوں پر اتفاق نہیں ہے اور یہ میں آپ کو سنی سنائی بات نہیں بلکہ اندر کی بات کہہ رہا ہوں، ان کے اندر آج بھی یہ واضح نہیں ہے کہ استعفے دینے ہیں یا نہیں دینے ہیں یا کب دینے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو ابہام ہے، ان کی حکمت عملی بھی واضح نہیں ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں جو فیصلہ کن قوت ہے وہ نہ جلسے میں تھی، نہ پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں تھی اور وہ فیصلہ کن قوت آصف علی زرداری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک مثال ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور تو بلاول تو دکھانے کے لیے ہے، فیصلہ بلاول نہیں کرتا، پیپلز پارٹی کے فیصلے آج بھی آصف علی زرداری کرتے ہیں، ان کا اندرونی حلقہ اچھی طرح جانتا ہے کہ بااختیار کون ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ پیپلز پارٹی نے ابھی تک فیصلہ نہیں کیا، ہو سکتا ہے کہ سوچ رہے ہوں، فیصلہ کوئی نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیں: قانون کو گھر کی لونڈی بنانے والوں کو ایف آئی ار کا اندراج ناگوار گزرا، فردوس عاشق

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے، وہ استعفوں کے ایشو پر تقسیم ہے اور اس مسئلے پر ان میں واضح دو دھڑے دکھائی دے رہے ہیں، ایک سوچ شہباز شریف کی ہے اور دوسری مریم نواز کی ہے اور دونوں سوچوں میں ایک خلا ہے اور وہ ابھی تک یکجا نہیں ہو پائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ پارٹی میں دو لڑیاں ہیں جن میں سے کچھ چہرے نواز شریف صاحب کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور کچھ خواتین و حضرات مریم بی بی کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کا استعفوں پر اتفاق ہے اور واقعتاً سنجیدہ ہیں تو 31 تاریخ تک آپ کے استعفے اسپیکر تک پہنچنے چاہئیں نہ کہ قیادتوں کے پاس کیونکہ قیادت کے پاس استعفیٰ پہنچانا تو دکھاوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پختہ کارکن سمجھتا ہے کہ یہ دباؤ کا ایک طریقہ ہے اور وقت لینے کی سرگرمی ہے اور کچھ نہیں، اس میں سنجیدگی نہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور میں پی ڈی ایم کا جلسہ: مسلم لیگ (ن) کی قیادت و منتظمین کے خلاف مقدمہ

شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا کہ لانگ مارچ پر بھی ابھی تک پی ڈی ایم میں اتفاق نہیں ہے، لاہور میں ریلی کے بعد جاتی امرا میں جو ان کی نشست ہوئی اس میں کہا گیا کہ پہلی فروری کو پی ڈی ایم کا اجلاس بلایا جائے گا اور اس میں تبادلہ خیال کے بعد فیصلہ کیا جائے گا اور تاریخ دی جائے گی یعنی ابہام ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس سے یہ وضاحت ہو گئی کہ نہ تو استعفوں پر اتفاق ہے نہ لانگ مارچ پر ابھی یکسوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 13 تاریخ کو کارکنوں کو دعوت دی گئی اور کارکن آ گئے کیونکہ کارکن کی قیادت سے وابستگی ہوتی ہے جس کے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے وہ پہنچا لیکن پی ڈی ایم عوام کو نکالنے میں ناکام رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ پاکستان اور صوبہ پنجاب کو چھوڑیے، اگر لاہور کا شہر متحرک ہو جاتا تو جلسہ ہوتا، یہ مایوسی نہ ہوتی جو پی ڈی ایم کو اٹھانی پڑی ہے، اس سے ظاہر ہوا کہ لاہوری اور لاہور کے باشعور شہری اس پورے عمل سے لاتعلق رہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور سیاست کا مرکز اور سیاست کی نبض ہے اور اس نبض نے ان کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اندر کی رپورٹ ہے کہ 'یہ' گھبرا گئے ہیں، مریم نواز

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ان کے جلسے کی ناکامی کی وضاحت اس سے ہوتی ہے کہ کاروباری حلقوں نے اس پر ردعمل دیا اور اگلے ہی دن اسٹاک مارکیٹ اوپر کی طرف جاتی ہے، اگر ان کے جلسے میں کوئی قوت ہوتی تو اسٹاک مارکیٹ کریش کررہی ہوتی، اوپر نہ جا رہی ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی قیادت، بیانیہ مسترد کے جانے پر غور فکر کرنے کے بجائے یہ بحث کی گئی کہ میڈیا کے فلاں چینل نے انصاف نہیں کیا، میڈیا کا فلاں اینکر یہ بات کررہا تھا، آپ اپنی ناکامیوں کو میڈیا پر کیوں ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹ کرتا ہے اور جو انہوں نے دیکھا وہ تبصرہ کردیا، اب اگر وہ تبصرہ کریں جو آپ کو بھاتا ہو تو میڈیا آزاد ہے اور اگر وہ ایسا تبصرہ کردیں جو آپ کے مزاج کے برعکس ہو تو میڈیا اداروں کے دباؤ میں ہے، ایسا نہیں ہوتا، یہ دوہرا معیار ہے، وہی میڈیا جب آپ کے حق میں بات کررہا ہوتا ہے تو بات بہت پسند آتی ہے اور آپ اپنی تقاریر میں اس کا حوالہ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہی میڈیا جب آپ کو آئینہ دکھاتا ہے اور آئینہ دیکھ کر آپ کو اپنا چہرہ ٹھیک نہیں لگتا تو پھر آپ اپنا غم و غصہ میڈیا کے مختلف چینلز پر ٹرانسفر کر دیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا جلسہ: انارکی سے پہلے حالات کو سنبھالنا چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن

انہوں ئے کہا کہ لاہور ڈکلیئریشن میں بہت سی باتیں کی گئیں، الٹی میٹم کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہم یہ الٹی میٹم دیتے ہیں کہ 31 جنوری تک وزیراعظم پاکستام مستعفی ہو جائیں لیکن کیوں مستعفی ہو جائیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان یا اس حکومت کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کو ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹ پڑا ہے، آپ کے کہنے پر وہ کیوں مستعفی ہو جائیں؟

شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پھر یہ کہا گیا کہ اس لیے چلے جائیں کہ ان کو انتخابات شفاف دکھائی نہیں دیے، آپ جمہوری تحریک ہونے کے ناطے ایک غیرجمہوری اور غیرآئینی مانگ کیسے کر سکتے ہیں، ایک شخصیت جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہے، جو آئین کی روح ایوان کے اعتماد کے ووٹ سے لطف اندوز ہو رہی ہے، وہ اس لیے مستعفی ہو جائے کہ یہ آپ کی خواہش ہے، آپ کی ہر خواہش تو پوری نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات کے بعد بہت سارے لوگوں کو اعتراضات تھے، ہمیں اعتراض تھا لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو اس بات کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ آج جو ان کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں لوگ، میری مراد پیپلز پارٹی سے ہے کہ وہ 2013 میں وہ کیا کہہ رہے تھے، کیا پیپلز پارٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ 2013 کے انتخابات آر او الیکشنز ہیں لیکن آپ نے پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کی نہیں سنی تھی اور آپ اپنی ضد پر قائم رہے کہ ہمارا مینڈیٹ ہے اور اس مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ 2008 میں پیپلز پارٹی منتخب ہوتی ہے تو وہ اپنی پوری پانچ سال کی مدت مکمل کرتی ہے، 2013 میں مسلم لیگ (ن) منتخب ہوتی ہے تو وہ پورے پانچ سال کی مدت مکمل کرتی ہے تو 2018 میں تحریک انصاف اور ان کی حلیف جماعتیں منتخب ہوئی ہیں تو وہ اپنی مدت پوری کیوں نہ کریں؟ کیا منطق ہے؟ کیا جواز ہے کہ دھاندلی ہوئی، 70 کے بعد کونسا الیکشن ہے جس پر دھاندلی کا سوال نہیں اٹھایا گیا، ہر الیکشن پر کوئی نہ کوئی سوالیہ نشان اٹھاتا رہا لیکن اگر آپ کی نیت صاف ہو تو اس کے لیے بھی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'اختلافات دور' کرنے کیلئے بلاول بھٹو زرداری کی مصطفیٰ نواز کھوکھر سے آج ملاقات متوقع

وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کے مقاصد کچھ اور ہیں، اگر آپ کو آج پی ٹی آئی کا مینڈیٹ منظور نہیں ہے اور آپ ایوان کے اندر تبدیلی نہیں بلکہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں تو آپ کا یہ مطالبہ ہی غیرجمہوری، غیرآئینی اور غیراخلاقی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فرض کیجیے کہ اگر انتخابات ہو جاتے ہیں، فرض کیجیے آپ کو مینڈیٹ مل جاتا ہے، پی ٹی آئی کیوں تسلیم کرے گی، اگر آپ نے پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا تو پی ٹی آئی آپ کا مینڈیٹ کیوں تسلیم کرے گی اور پھر یہ بات تھمے گی کہاں اور اس ملک میں سیاسی استحکام کیسے آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے ملک کو مستقل طور پر عدم استحکام کی نذر کرنا ہے تو سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہماری علاقائی صورتحال اس بات کی اجازت دیتی ہے، ہر پارٹی میں سنجیدہ عناصر ہیں اور انہیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ یہ بے یقینی کی کیفیت برقرار رکھتے ہیں تو اس کا لوگوں پر کیا اثر ہو گا، آپ کہتے ہیں کہ لوگ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تو اگر معیشت آگے بڑھ رہی ہے، معاشی اشاریے اوپر جا رہے ہیں تو آپ اس میں رخنہ اندازی کیوں کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کی حکومت مخالف مہم لاہور میں دفن ہوگئی، وزیراعظم

انہوں نے کہا کہ آپ کے مقاصد کچھ اور ہیں اور قوم بھانپ چکی ہے، تب ہی انہوں نے 13 تاریخ کو عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ مشروط گفتگو کرنا چاہتے ہیں جو ہمیں قابل قبول نہیں ہے، دھمکیوں سے تو بات نہیں چلے گی۔

انہوں نے کہا کہ بلاول نے کہا کہ گفتگو کا وقت گزر چکا ہے لیکن یہ ناتجربہ کاری ہے کیونکہ سیاست میں گفت و شنید ہوتی ہے، سیاست میں دروازے بند نہیں ہوتے، اگر آپ نے سیکھنا ہے تو اپنے نانا سے سیکھ لیں۔

شاہ محمود قریشی نے مریم نواز اور بلاول بھٹو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے دونوں مستقبل کے وزارت عظمیٰ کے منتظر افراد ایک دوسرے کو بھی برداشت نہیں کر پائیں گے، وہ وقت دور نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عارضی اور غیرفطری اتحاد ہے جس کے منفی مقاصد ہیں۔

انہوں نے پی ڈی ایم کی قیادت کو خبردار کیا کہ اس رویے سے آپ جمہوریت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاریخ سے سبق سیکھیے اور پاکستان کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، جمہوریت کو ایک سے زائد مرتبہ پٹڑی سے اتار دیا گیا، تاریخ سے سبق سیکھیے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں برملا کہتا ہوں اور تحریک انصاف کا مؤقف پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت تک وقت ضائع کیے بغیر فی الفور پہنچانا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت 31 جنوری تک مستعفی نہ ہوئی تو لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کردیا جائیگا،فضل الرحمٰن

انہوں نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ 31 جنوری تک وزیر اعظم مستعفی ہو جائیں، ہم واضح کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم پاکستان استعفیٰ نہیں دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسمبلیوں کو تحلیل کردیا جائے، وزیر اعظم کہہ رہے ہیں اور میں ان کی ترجمانی کررہا ہوں کہ اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جائیں گی، ملک کا نظام آپ کی خواہش پر نہیں چل سکتا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس ڈیڈ لائن کو مسترد کرتے ہیں لیکن ہماری کوئی ہٹ دھرمی نہیں ہے، اپنے ذاتی مفادات اور ایجنڈے کو ایک طرف رکھتے ہوئے سیاسی مفادات اور ایجنڈے کو ایک طرف رکھ کر قومی مفاد میں کوئی چیز ہے تو سامنے لائیں، اگر آپ شفاف انتخابات اور انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں تو آئیں، بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024