خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں اموات، ذمے داروں کے تعین کیلئے نئی کمیٹی تشکیل
پشاور: خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں واقعے کی ذمے داری طے کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جہاں 6 دسمبر کو آکسیجن کی کمی کے باعث 6 مریضوں کی موت ہو گئی تھی۔
اس سے قبل 11 دسمبر کو رپورٹ طلب کرنے والے وزیراعلیٰ محمود خان نے اب خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز (بی او جی) کو مزید وقت لینے کی اجازت دی ہے لیکن وہ ٹھوس نتائج کے ساتھ سامنے آئیں اور ذمے داروں کا تعین کرتے ہوئے کوئی معمولی کارروائی کرنے کے بجائے ذمے دار افراد کو نوکری سے برخاست کریں۔
مزید پڑھیں: پشاور: بروقت آکسیجن نہ ملنے پر کورونا وائرس کے 5 مریض جاں بحق
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے چیئرمین پروفیسر ندیم خاور نے ڈان کو بتایا کہ ہمیں وزیر اعلیٰ کی طرف سے اجازت دی گئی ہے کہ زیادہ وقت لے لیں لیکن اس معاملے کی مکمل تحقیقات کریں، ہم نے تین پروفیسرز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو رواں ہفتے ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کرے گی۔
اموات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ہسپتال کے ڈائریکٹر کو معطل کرنے کے علاوہ چھ دیگر افراد کو معطل کرنے کی سفارش کی ہے اور اس کے علاوہ دکاندار پر بروقت آکسیجن فراہم نہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ سابق ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر طاہر ندیم خان، کی معطلی کے معاملے کی نئی کمیٹی مکمل جانچ پڑتال کر رہی ہے۔
انہوں نے رواں سال جولائی میں یہ عہدہ سنبھالا تھا جب کہ آکسیجن کا معاملہ 2017 کا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت خیبرپختونخوا کا ایم ٹی آئیز میں کورونا مریضوں کو داخل نہ کرنے پر غور
70 کی دہائی کے آخر میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے قیام کے بعد سے ہسپتال ڈائریکٹر کی آمد تک ہسپتال میں سینٹرل مائع آکسیجن ٹینک میں آکسیجن کی گنجائش 5000 لیٹر تھی، ہسپتال کے اپنے آکسیجن سیلنڈر 150 تھے جبکہ پاکستان آکسیجن سے ادھار پر 50 سیلنڈر لیے گئے تھے جس سے 40 سال میں کل تعداد 200 ہو گئی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ہسپتال ڈائریکٹر نے مرکزی ٹینک کی صلاحیت 10ہزار لیٹر کردی گئی اور ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز کے دفتر سے 100 بھرے ہوئے سلنڈرز لے کر ہسپتال کی ملکیت میں موجود سیلنڈروں کی تعداد میں 67 فیصد اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہسپتال ڈائریکٹر نے مرکزی آکسیجن سپلائی نصب کرنے کی منظوری کے لیے معاملہ بورڈ آف گورنرز کی کے سامنے پیش کیا ہے جس پر 9 دسمبر کو ہونے والی میٹنگ میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
گورنمنٹ سرونٹس (کارکردگی اور نظم و ضبط) رولز 1973 کے مطابق چیف سیکریٹری کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بی پی ایس 20 کے افسر کے خلاف تحقیقات کا حکم دے۔
مزید پڑھیں: آکسیجن کی عدم فراہمی پر جاں بحق افراد کے لواحقین کیلئے 10 لاکھ روپے کا اعلان
ذرائع کا کہنا تھا کہ رول 10 کے تحت جس شخص پر الزام ہے اس کے خلاف ابتدائی انکوائری کی جائے گی جس کے بعد رول 11 کے تحت ایک اور تفتیش کی جائے گی تاکہ حقائق سے متعلق رپورٹ کی سفارش کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال ڈائریکٹر کے خلاف الزامات برقرار رہتے ہیں تو وہ عدالت میں درخواست دے سکتے ہیں اور جانچ پڑتال کے عمل کو چیلنج کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بورڈ آف گورنرز کی انکوائری غیر قانونی تھی کیونکہ چیف سیکریٹری واحد بااختیار افسر تھا جس نے بی پی ایس 20 کے افسر کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، انہوں نے مزید کہا کہ کسی نے بھی واقعے کے بارے میں ہسپتال ڈائریکٹر سے نہیں پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔
خیبر ٹیچنگ ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ انہوں نے ابتدائی کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیا ہے اور وہ وزیر اعلیٰ کے حکم پر مکمل تحقیقات کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور کے بڑے ہسپتالوں میں کورونا مریضوں کیلئے جگہ کم پڑنے لگی
انہوں نے بتایا کہ واقعے سے متعلق مکمل رپورٹ رواں ہفتے کے آخر میں وزیر اعلیٰ کو پیش کی جائے گی اور وہ کارروائی کریں گے، امکانات موجود ہیں کہ ذمہ دار افراد کو نوکری سے برطرفی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بورڈ آف گورنرز نے کہا کہ تحقیقات کی قانونی حیثیت پر تشویش ہے کیونکہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال ایک خود مختار ادارہ ہے بورڈ آف گورنرز کے زیر انتظام چلتا ہے اور اس طرح کی تفتیش کرسکتا ہے۔