• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

حکومت پرائمری کلاسوں میں یکساں تعلیمی نصاب متعارف کروانے کیلئے تیار

شائع December 15, 2020
پہلے مرحلے میں پرائمری کلاسوں میں اسے متعارف کروایا جائے گا—فائل فوٹو: اے ایف پی
پہلے مرحلے میں پرائمری کلاسوں میں اسے متعارف کروایا جائے گا—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: رواں سال کے اوائل میں قومی بحث جنم دینے والا یکساں قومی نصاب (ایس این سی) آنے والے تعلیمی سیشن میں عملدرآمد کے لیے تیار ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت نے درسی کتب کی اشاعت کا حکم بھی دے دیا ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے ڈان کو بتایا کہ ایک قومی تعلیمی نصاب تیار کرلیا گیا ہے اور اب صوبائی حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق کتابیں شائع کریں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ یکساں قومی نصاب پر مبنی نئی کتب نئے تعلیمی سیشن کے آغاز میں متعارف کروائی جائیں گی۔

واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے مرحلہ وار اس منصوبے پر عمل درآمد کا ادارہ ہے اور سال 2021 کے سیشن کے دوران پرائمری کی سطح (پریپ سے پانچویں جماعت) تک یہ نصاب متعارف ہوگا، اس کے بعد 2022 میں سیکنڈری کی سطح (چھٹی سے آٹھویں جماعت) تک اسے متعارف کروایا جائے گا۔

مزید پڑھیں: یکساں تعلیم طبقاتی نظام کا خاتمہ کرے گی، وزیراعظم

جس کے بعد آخری مرحلے میں نئے نصاب کو نویں سے 12 جماعت کے لیے متعارف کروایا جائے گا۔

وفاقی وزارت تعلیم اور قومی نصاب کونسل (این سی سی) آئندہ تعلیمی سیشن کے ساتھ ہی پرائمری کلاسوں میں یکساں قومی نصاب کے نفاذ کے بارے میں پُراعتماد ہے۔

اس سلسلے میں صوبائی حکومتوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ نئے نصاب کی روشنی میں کتب کی اشاعت شروع کریں۔

تاہم صوبہ سندھ کی جانب سے پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کردیا گیا۔

وزیرتعلیم سندھ سعید غنی کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ نے پہلے ہی نصاب کی تیاری میں بہت کام کیا ہے اور ہم نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں تیزی سے نصاب کو اپڈیٹ کیا ہے اور ہم یکساں قومی نصاب اپنانے نہیں جارہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم حتمی فیصلہ لینے سے قبل اس معاملے کو مزید دیکھیں گے‘۔

وہیں وفاقی حکومت تحفظات کے باوجود اپنے پلان کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے پرعزم ہے۔

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یکساں نصابِ تعلیم متعارف کروانے کو ایک ’انقلابی قدم‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب تمام طلبہ کو اپنے والدین کی معاشرتی و معاشی حیثیت سے قطع نظر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک قومی نصاب کا مقصد طبقات پر مبنی تعلیمی نظام کو ختم کرنے اور مساوی مواقع فراہم کرنا ہے‘۔

وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کووڈ 19 کی وجہ سے نیا تعلیمی سیشن واپس اپریل کے بجائے اگست میں شروع کرنے کی تجویز پر غور کر رہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ’آیا سیشن اپریل میں شروع ہو یا اگست میں، ہم ایک قومی نصاب متعارف کروانے کے لیے تیار ہیں‘۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے مرکز اور تین صوبوں پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں اقتدار میں آنے کے بعد سے وزارت تعلیم کے حکام کا خیال ہے کہ سندھ کے علاوہ پورے ملک میں ایک نصابی منصوبے پر عملدرآمد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

سندھ کے تحفظات کو حل کرنے سے متعلق شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ’حکومت سندھ نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ ان تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کے سلسلے میں حال ہی میں صوبائی وزیر سے ملاقات کی تھی تاہم ہم مزید ملاقاتیں کریں گے کیونکہ میں اس تاریخی قدم کو شروع کرنے سے قبل ہر کسی کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں۔

اگرچہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاقی وزارت صوبوں کو اعتماد میں لینے کے بعد ہمیشہ فیصلے کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یکساں نصاب کا فائدہ؟

علاوہ ازیں ڈان سے گفتگو میں این سی سی کے سربراہ رفیق طاہر کا کہنا تھا کہ ’ایک قومی نصاب کو حتمی شکل دینے کے بعد ہم نے کتب کی اشاعت کے لیے اسے صوبوں کو بھیج دیا‘۔

این سی سی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سائنس اور ریاضی کے مضمون انگریزی میں پڑھائے جائیں گے جبکہ باقی دیگر کتب اردو میں شائع ہوں گی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’اساتذہ تدریس کے ذریعے کے طور پر اردو اور دیگر علاقائی زبانیں استعمال کرسکتے ہیں‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایک قومی نصابِ تعلیم بین الاقوامی میعار کے مطابق ہے جہاں تک کہ کمبرج نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔

دریں اثنا وزارت تعلیم کے ایک عہدیدار کے مطابق سندھ نے نوبل پرائز یافتہ ملالہ یوسف زئی اور اقبال مسیح پر چیپٹر شامل کرنے کی تجویز دی تھی۔

اقبال مسیح ایک پاکستانی بچہ تھا جسے اس وقت ایک کارپیٹ بنانے والے کو فروخت کردیا گیا تھا جب وہ 4 سال کا تھا، تاہم 10 سال کی عمر میں وہ قید سے فرار ہوگیا تھا اور بچوں کے استحصال کے خلاف ایک توانا آواز بنا تھا، اسے 13 سال کی عمر میں مار دیا گیا تھا۔


یہ خبر 15 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024