برطانیہ میں کورونا ویکسین کا استعمال شروع، برٹش پاکستانی کیا رائے رکھتے ہیں؟
سال 2020ء، ایک غیر معمولی سال رہا، اور شاید دنیا کی جدید تاریخ میں طویل عرصے تک سب سے الگ اور منفرد سال کی حیثیت سے جانا جاتا رہے گا۔
یہ پورا سال ہی مایوسی، اداسی اور گھٹن کی زد میں رہا۔ کورونا وائرس نے بیماری اور پریشانی تو پھیلائی، ساتھ وائرس سے بچاؤ کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے بھی انسانی سرگرمیوں کو محدود کرکے رکھ دیا۔ لیکن سال کے اختتام پر ایک امید افزا بات یہ ہوئی کہ یہ سال رخصت ہوتے ہوئے اچھی خبر دے کر جارہا ہے، یعنی کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری اور اب اس کے استعمال کا آغاز۔
دسمبر کا دوسرا ہفتہ اس وقت برطانیہ کے لیے خاص طور پر اچھی خبر لایا جب دنیا بھر کی ٹی وی اسکرینز نے یونیورسٹی ہسپتال کوونٹری میں 90 سالہ خاتون، مارگریٹ کینان کو کورونا وائرس ویکسین لگانے کے مناظر نشر کیے۔ مارگریٹ برطانیہ کی پہلی شہری ہیں جنہیں یہ ویکسین لگائی گئی اور وہ اسی ماہ اپنی 91ویں سالگرہ بھی منائیں گی۔ انہوں نے ویکسین کو سالگرہ کا بہترین تحفہ قرار دیا۔
اس کے ساتھ ہی برطانیہ بھر میں ویکسین لگانے کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا ویکسین پروگرام قرار دیا جارہا ہے۔ برطانیہ فی الحال، امریکی اور جرمن کمپنیوں فائزر اور بائیو ٹیک کے اشتراک سے بنائی جانے والی ویکسین استعمال کررہا ہے۔ یہ ویکسین یورپی ملک بیلجیم میں تیار کی جارہی ہے اور برطانیہ نے مجموعی طور پر اس ویکسین کی 4 کروڑ خوراکوں کا آرڈر دیا ہے، جس میں سے 8 لاکھ ویکسین برطانیہ پہنچ چکی ہیں اور اب مرحلہ وار برطانوی شہریوں کو لگائی جائیں گی۔
مزید پڑھیے: لندن، ماضی میں وبا کے دن کیسے تھے؟
برطانیہ میں اس ویکسین کو مرحلہ وار استعمال کیا جارہا ہے۔ سب سے پہلے مرحلے میں 80 سال سے معمر افراد، کیئر ہوم اسٹاف اور طبّی عملہ شامل ہے جبکہ اس کے بعد بتدریج دیگر لوگوں کی باری آئے گی۔
ویکسین پروگرام کے حجم کی وجہ سے اگرچہ کوئی حتمی تاریخ تو نہیں دی گئی لیکن امید کی جارہی ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تیار کی جانے والی ویکسین دستیاب ہونے کے بعد اس تمام عمل میں تیزی آجائے گی کیونکہ آکسفورڈ ویکسین دیگر ویکسین کے مقابلے میں ناصرف نہایت کم قیمت ہے بلکہ استعمال کے حوالے سے بھی آسان ہے اور اسے اسٹور کرنے کے لیے مخصوص درجہ حرارت کی ضرورت بھی نہیں۔
اس تاریخی مرحلے پر جہاں سرکاری حکام اور طبّی ماہرین اپنی خوشی اور امید کا اظہار کررہے ہیں، وہیں برطانوی شہری بھی اس بارے میں اپنی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے خاص طور پر برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد سے گفتگو کی اور جاننے کی کوششش کی کہ کورونا وبا کے دنوں میں ویکسین کی آمد کی خبر ان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔
68 سالہ ریٹائرڈ بینکر، ادیب اور شاعر عابد علی بیگ کینٹ میں مقیم ہیں۔ وبا نے ان کے معمولات کو بھی متاثر کیے رکھا۔ کہتے ہیں ‘یہ زندگی کا ایک نیا تجربہ ہے اور میری عمر کے افراد کو اب بھی خاصا محتاط رہنے کی ہدایات ہیں، اسی لیے اس سال مارچ کے بعد سے دوست احباب اور عزیزوں سے ملاقاتیں موقوف ہیں۔ صرف فون اور سوشل میڈیا کے توسط سے رابطے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان رابطوں میں تواتر پیدا ہوا اور اب پہلے سے کہیں زیادہ ایک دوسرے کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ وائرس کی وجہ سے کئی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں جن میں کاروباری اور سماجی دونوں شامل ہیں۔ میں ادبی تقریبات کے علاوہ ٹی وی کے کچھ پروگراموں میں بھی شریک ہوتا تھا لیکن مارچ 2020ء سے یہ سلسلے بند ہیں۔ بس کبھی کبھار اسکائپ یا زوم کی مدد سے کچھ مشاعروں یا ٹی وی شوز میں شرکت ہورہی ہے’۔
ویکسین کے حوالے سے ان کے ذہن میں بھی وہی سوالات ہیں جو بہت سے دیگر افراد اور خود طب کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز کے ذہن میں بھی ہیں کہ ‘یہ ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟ کتنے عرصے اس کا اثر قائم رہے گا؟ کوئی سائیڈ ایفیکٹس ہوں گے؟ ویکسین لینے والے پر وائرس کا اثر شاید نہ ہو مگر کیا وہ یہ وائرس کسی سے لے کر کسی اور کو منتقل کرے گا؟’ عابد علی بیگ کے مطابق ایسے کئی سوالات ہنوز جواب طلب ہیں۔
ان سوالات کے حوالے سے ڈاکٹر عمران گوہر کا کہنا ہے کہ ‘ویکسین کے علاوہ فی الحال ہمارے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا کچھ نظر آرہا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ کسی بھی دوا یا ویکسین کے استعمال میں رسک ہوسکتا ہے اور موجودہ ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹ کے حوالے سے بھی بات ہورہی ہے’۔
عمران کے مطابق ’جیسے ہم نے اس وبا کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ سیکھا ہے یقیناً اس کی ویکسین اور اسے بہتر بنانے کے حوالے سے بھی ہم آہستہ آہستہ سیکھ لیں گے۔ وہ کافی پُرامید ہیں کہ آئندہ کچھ عرصے میں ہم ایسی ویکسین بھی دیکھ سکیں گے جو ناصرف استعمال میں آسان ہوگی بلکہ مؤثر بھی زیادہ ہوگی۔
ڈاکٹر عمران گوہر جنرل فزیشن ہیں اور لندن کے قریبی ٹاؤن ‘ہارلو’ میں ایک میڈیکل سینٹر کو لیڈ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمران اور ان کا سینٹر کورونا وبا کے آغاز ہی سے بھرپور انداز میں متحرک رہے ہیں اور وہ مریضوں کی مسلسل بڑھتی تعداد کی وجہ سے تقریباً گزشتہ 8 ماہ سے ایک چھٹی بھی نہیں کر پائے۔
برطانیہ میں 18 سال سے مقیم ڈاکٹر عمران گوہر کہتے ہیں کہ ’ان کے میڈیکل سینٹر سے منسلک 80 سال سے زائد عمر کے افراد جنہیں پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جائے گی وہ اس حوالے سے بہت مثبت ہیں اور فون کرکے اپنی باری کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ معمر افراد گزشتہ کئی ماہ سے بالکل الگ تھلگ ہیں اور ان کی سرگرمیاں رک چکی ہیں، وہ اس ویکسین کو خدا کا تحفہ سمجھ رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اس ذریعے سے شاید حالات نارمل ہوجائیں’۔
کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ مشکلات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے عمران کہتے ہیں کہ ’کورونا نے لوگوں کو بیمار تو کیا ہے اور کئی افراد اس بیماری کے سبب جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس وائرس نے عام افراد اور خود میڈیکل کمیونٹی کو بھی ڈر اور تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے جس سے نفسیاتی مسائل بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں اور ہمیں بعض اوقات کورونا سے زیادہ ان مسائل کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے حالات میں عمران ویکسین کی آمد اور استعمال کو ایک خوشخبری سمجھتے ہیں‘۔
کچھ یہی خیالات برطانیہ میں گزشتہ 25 سال سے مقیم احسان شاہد چوہدری کے ہیں۔ لندن کے علاقے ہونسلو میں رہنے والے احسان صرف ہونسلو ہی نہیں بلکہ لندن بھر میں ایک متحرک اور فعال کمیونٹی رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہ کتب کے مصنف ہونے کے ساتھ پاکستان ویلفیئر ایسوسی ایشن ہونسلو کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔
احسان ویکسین کا استعمال شروع ہونے پر نہایت پُرجوش نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہیں امید ہے کہ مشکل کے دن اب تھوڑے ہیں اور ویکسین رول آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی وائرس کی شدت میں کمی آجائے گی۔ جس کے بعد وہ اپنے رکے ہوئے کام سرانجام دے سکیں گے۔ لیکن احسان اس بات پر بھی مطمئن ہیں کہ وہ وبا کے دنوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہے بلکہ انہوں نے مقامی رضاکاروں کے ساتھ مل کر ‘اوپن کچن’ پراجیکٹ شروع کیا جس کے تحت وبا کے دنوں میں تقریباً ایک لاکھ مفت کھانے مہیا کیے گئے۔
احسان کا کہنا ہے کہ اگرچہ کورونا مجموعی طور پر نقصان دہ ثابت ہوا ہے لیکن اس نے بہت سے لوگوں کو اچھائی کے کاموں پر بھی ابھارا ہے خاص کر وہ اس موقع پر پاکستانی کمیونٹی میں خدمت کا جذبہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ وبا کی وجہ سے جہاں لوگ مشکل کا شکار ہیں وہاں ایسے افراد بھی ہیں جو ان کے لیے عطیات اکٹھے کررہے ہیں، خوراک کا انتظام کررہے ہیں اور اوپن کچن پراجیکٹ جیسے منصوبوں کے ذریعے بلا تفریق رنگ و نسل انسانیت کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں جو بہت خوش آئند ہے۔
مزید پڑھیے: کورونا وائرس، برطانیہ میں معمولات زندگی کیسے ہیں؟
شاید احسان اکیلے ہی نہیں جنہوں نے کورونا وبا میں سے بھی مثبت پہلو تلاش کرلیا ہے۔ کچھ ایسا ہی بات لندن میں مقیم ایمن طارق بھی بتا رہی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’اگرچہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شروع میں مشکل ہوئی اور سونے جاگنے کے اوقات بھی متاثر ہوئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ نئی روٹین کی عادت ہوگئی۔ وہ خوش ہیں کہ انہوں نے یہ وقت بچوں کی پسند ناپسند سمجھنے، انہیں مثبت عادات سکھانے اور فیملی بائنڈنگ مضبوط بنانے میں گزارا‘۔
ایمن مزید بتاتی ہیں کہ لاک ڈاؤن نے ترجیحات کا تعین کرنے میں مدد کی ‘بہت سی وہ چیزیں جن کے بغیر زندگی کا تصور نہیں تھا ان سے دلچسپی اتنی نہ رہی۔ جیسے شاپنگ، آؤٹنگ اور باہر کھانا کھانا وغیرہ۔ اس کے علاوہ دعوتوں، فنکشنز، ملنے ملانے اور کمیونٹی سگرمیوں میں بھی تعطل رہا لیکن بہت سے رشتہ دار اور حلقہ احباب کے لوگ جن سے پہلے رابطے کم ہوتے تھے ان سے رابطے بڑھ گئے۔ اس کے علاوہ آن لائن پروڈکٹو سرگرمیوں کی طرف بھی توجہ زیادہ رہی’۔
ویکسین کے حوالے ایمن کا خیال ہے کہ ’چونکہ یہ وائرس اور اس کی ویکسین ابھی بالکل نئے ہیں اس لیے بعض اوقات خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے مضر اثرات جو نظر سے اوجھل ہیں وہ آئندہ کسی بیماری یا معذوری کا سبب نہ بن جائیں۔ اگرچہ وہ ویکسین کی آمد کو ایک بڑی خبر سمجھتی ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ ویکسین آنے کے بعد بھی زندگی پرانے انداز میں نارمل نہیں ہوگی اور نئے قوانین اور زندگی گزارنے کے نئے اصول ہمارے معاشرتی سانچے کو تبدیل کردیں گے‘۔
ایمن کی طرح سعدیہ نے بھی بتایا کہ ’انہوں نے کورونا اور خاص کر لاک ڈاؤن کے ایّام سے اپنی تیز رفتار زندگی میں کچھ ٹہراؤ لانے کے لیے مدد لی‘۔ لندن میں مقیم سعدیہ ایک نجی ٹیلیوژن چینل میں پروڈیوسر ہیں اور میڈیا فیلڈ کی مخصوص تیز رفتار روٹین کے باعث اپنے شوق اور مشغلوں کی تکمیل کے لیے کم ہی وقت نکال پاتی ہیں۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کو ایک غنیمت سمجھا اور یہ وقت باغبانی اور کوکنگ کرتے ہوئے گزارا۔
سعدیہ اس بات پر بھی مطمئن ہیں کہ اگرچہ کچھ عرصہ صرف گھر ہی میں رہنا پڑا اور مہمانوں کی آمد بھی نہیں ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے یہ وقت اپنے اوپر صرف کیا جو شاید برطانیہ کی روٹین کی زندگی میں بالکل بھی ممکن نہ تھا۔ ویکسین کے حوالے سے سعدیہ کا کہنا ہے کہ ’وہ اس بارے میں تذبذب کا شکار ہیں اور فوری طور پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتیں لیکن وہ دعاگو ہیں کہ اس عمل سے انسانیت کے لیے خیر برآمد ہو‘۔
برمنگھم میں رہائش پذیر سید مجتبٰی صحافی ہیں اور طویل عرصے سے برطانیہ میں ہونے والی اہم تبدیلیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ ویکسین کی تیاری اور اس کا استعمال خوش آئند ہے لیکن اس سے یہ توقع وابستہ کرلینا کہ پلک جھپکتے میں زندگی معمول کی جانب لوٹ جائے گی، غلط ہے۔ ویکسین عوام کی اکثریت تک پہنچانا بذاتِ خود ایک بہت اہم ٹاسک ہے اور برطانیہ کی تاریخ کا سب سے بڑا ویکسین آپریشن بھی ہے‘۔
سید مجتبٰی نے مزید کہا کہ ’اس پروگرام کے عمل درآمد میں یقیناً حکومت کو لاجسٹک مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ ہم سن رہے ہیں کہ ابھی جو ویکسین استعمال کی جارہی ہے اسے منفی 70 درجہ پر رکھنا ضروری ہے۔ اس قسم کے چیلنجز سے نبردآزما ہونا بذاتِ خود ایک رکاوٹ بن سکتی ہے‘۔
عوام میں موجود شکوک و شبہات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’جب بھی کوئی نئی ایجاد یا دریافت سامنے آتی ہے، اس کے بارے میں شک ایک قدرتی امر ہے لیکن مؤثر اور بھرپور شعور اجاگر کرنے کی مہمات کے ذریعے رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے‘۔
اسی حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ برطانیہ میں رہنے والی دیگر مسلم کمیونٹیز کو بھی عموماً ایک معاملہ اکثر درپیش رہتا ہے اور وہ ہے فلو جاب یا نزلے سے بچاؤ کی ویکسین میں شامل کچھ اجزا کی تحقیق کا۔
برطانیہ میں موسمِ سرما میں نیشنل ہیلتھ سروس کی جانب سے مختلف افراد خصوصاً بچوں کے لیے فلو جاب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں موجود جیلیٹن کی وجہ سے اکثر اوقات برطانوی مسلمان اس کے بارے میں شک میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگرچہ مسلم علما اور کمیونٹی کے مختلف فورمز اس حوالے سے آگہی پھیلاتے رہتے ہیں اور صحت کی حفاظت کے لیے یہ ویکسین استعمال کرنے کے لیے کمیونٹی کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں لیکن ہر بار موسمِ سرما کی آمد کے ساتھ ہی فلو جاب کے حوالے سے مباحثے شروع ہوجاتے ہیں۔
کچھ یہی معاملہ کورونا ویکسین کے ساتھ بھی پیش آتا دکھائی دے رہا ہے اور ویکسین کی آمد کی اطلاع کے ساتھ ہی کچھ لوگوں نے اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق لایعنی بحث شروع کرنے کی کوشش کی۔
برطانوی مسلم ہیلتھ پروفیشنلز کی تنظیم برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے ایسی افواہوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بروقت اپنی ویب سائٹ پر اس حوالے سے تفصیلی بیان جاری کیا اور مختلف طبّی حوالہ جات کے ساتھ لوگوں کے ذہن میں موجود شکوک و شبہات ختم کرنے کی کوشش کی جو یقیناً خوش آئند ہے۔
بہرحال کورونا وائرس ویکسین سامنے آنے اور اس کا استعمال شروع ہونے کے بعد اگرچہ امید کی کرن نظر آئی ہے لیکن اسے جادوئی ویکسین سمجھنا ٹھیک نہیں۔ طبّی ماہرین کی جانب سے بار بار یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ یہ ایک طویل مرحلہ ہے اور چونکہ کورونا وائرس کی طرح اس کی ویکسین سے بھی پہلی بار واسطہ پڑ رہا ہے اس لیے ہوسکتا ہے وقت کے ساتھ ابھی اس پر بہت سا کام کرنا پڑے۔
کورونا ویکسین کتنی مؤثر ہے اور یہ کس طرح وائرس سے محفوظ رکھ سکتی ہے اس کے بارے میں تو یقیناً کچھ عرصے میں معلوم ہوجائے گا۔ لیکن ایک بات جس میں شک کی گنجائش کم ہے وہ یہ کہ ہاتھ دھونے، صحت و صفائی کا خیال رکھنے، کھانستے اور چھینکتے وقت ناک اور منہ ڈھانپ لینے اور پُرہجوم جگہوں پر ماسک استعمال کرنے جیسی احتیاطی تدابیر سے آپ خود اور اپنے چاہنے والوں کو کسی حد تک وائرس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا پچھلے 11 ماہ میں اگر آپ ان عادات کو اپنا چکے ہیں تو ان پر عمل جاری رکھیے۔
تبصرے (3) بند ہیں