اہم ایجنڈوں کے ساتھ اقتصادی رابطہ کمیٹی کا 16واں اجلاس بدھ کو متوقع
اسلام آباد: کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا بدھ کے روز اجلاس متوقع ہے جس میں 2 کروڑ ڈالر کے آف شور بانڈز، صوبوں اور سرکاری شعبہ کے اداروں کے لیے وفاقی قرضوں پر نظرثانی شدہ مارک اپ کی شرح، 739 ارب روپے کا کراچی ٹرانسفارمیشن پلان اور وفاقی سبسڈی کے لیے ریشنلائزیشن منصوبے کے پہلے مرحلے سمیت بھاری ایجنڈا اٹھایا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ نومنتخب وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیر اعظم نے ہفتے کے آخر میں ہونے والی میٹنگ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ ریونیو ڈویژن کو ان کے پورٹ فولیو میں بحال کردیا جائے گا، اس کے نتیجے میں اقتصادی رابطہ کا دو بار ملتوی ہونے والا اجلاس بدھ (16 دسمبر) کو منعقد کیا جارہا تھا۔
مزید پڑھیں: اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کسانوں کیلئے 24 ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دے دی
اجلاس میں کم از کم 8 نکاتی ایجنڈا زیر بحث آئے گا، ان میں سے ایک میونسپل کارپوریشن اسلام آباد سے کچھ اہم ذمہ داریوں کی منتقلی کے بعد اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری ایڈمنسٹریشن کے منصوبوں کے لیے تکنیکی اضافی گرانٹس سے متعلق ہے، ایک اور بین الاقوامی تنظیموں جیسے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ، آبادی میں پارٹنرز اور ترقی اور انٹرنیشنل پلانڈ پیرنٹ ہُڈ فیڈریشن اور عالمی ادارہ صحت میں نمایاں شراکت داری سمیت اہم نکات شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے ذریعے پاکستانی روپے سے منسلک آفشور بانڈز کے لانچ کی منظوری دے گا جو تقریباً 20 کروڑ ڈالر کے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وزارت خزانہ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے آف شور بانڈ لانچ کے لیے مشاورت مکمل کرلی ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی سے صوبوں، کارپوریشنز اور خود مختار اداروں کو وفاقی قرضوں کے لیے نظر ثانی شدہ ریلینڈنگ پالیسی 2020 کی بھی منظوری کی توقع ہے، یہ بات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ایک ہفتہ قبل ہی وزارت خزانہ نے صوبوں کو نقد ترقیاتی قرضوں، مقامی اداروں، مالیاتی اور غیر مالیاتی اداروں اور دیگر کارپوریشنز اور تجارتی محکموں میں وفاقی حکومت کے دارالحکومت کے اخراجات کے لیے مارک اپ کی حتمی شرح کے حوالے سے مطلع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: اقتصادی رابطہ کمیٹی ایک ماہ میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے نئے ماڈل کی خواہاں
گزشتہ ہفتے وزارت خزانہ نے مالی سال 18-2017 کے لیے سالانہ 6.62 فیصد مارک اپ شرح، مالی سال 19-2018 کے لیے 11.53 فیصد اور مالی سال 20-2019 کے لیے 12.20 فیصد کو مطلع کیا تھا، صوبائی حکومتوں کے لیے قرض دینے کی پالیسی 2016 کے مطابق دوبارہ قرضے دینے کی شرح اصل شرح پر تھی لیکن وفاقی حکومت کے محکموں کے لیے ریٹ 9 فیصد تھا، خود مختار اداروں کے لیے 12 فیصد اور ڈی ایف آئی کے لیے 9 فیصد مقرر کیا گیا تھا۔
نظرثانی شدہ پالیسی میں تصور کیا گیا ہے کہ دوبارہ قرضے دینے والی پالیسی میں حکومت کے قرض لینے والے اخراجات، ایکسچینج رسک کوریج اور قرض دہندگان کے ذریعے ادائیگی کی ثقافت کی حوصلہ افزائی کے لیے اندرونی ساختہ مالی مراعات میں ہونے والی تبدیلیوں کی درست عکاسی کرنی چاہیے، پچھلے 5 سالوں سے وفاقی حکومت کے بیرونی قرضے لینے کی اوسط لاگت 3.6 فیصد تھی جبکہ اسی عرصے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر 9.1 فیصد گری تھی۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کو پیش کردہ سمری اب یہ چاہتی ہے کہ غیر ملکی قرضے انہی شرائط و ضوابط پر وفاقی حکومت کے محکموں، خود مختار اداروں اور ڈی ایف آئی پر بھروسہ کریں جن پر یہ قرض لیا گیا ہے اور صوبائی حکومتوں کی طرح اس پر کچھ انتظامی لاگت 0.25 فیصد لاگو کی جائے گی، قرضوں کی مدت کی تکمیل کے بعد 30 دن تک ادائیگی نہ ہونے کی صورتے میں رقم پر دو فیصد جرمانہ سود وصول کیا جائے گا۔
دوبارہ قرض دینے کی مجوزہ پالیسی 2020 چار اہم نکات پر مبنی ہے جس میں حکومت کے قرض لینے کی لاگت میں بدلاؤ، تبادلے کی شرح میں تغیرات، وفاقی حکومت کے خطرے کو کم کرنا اور شفافیت کے لیے قرض دہندگان تک کو اصل نرخوں منتقل کرنا شامل ہے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کے ایجنڈے کی ایک اور کلیدی چیز وفاقی کابینہ کی حالیہ پریزنٹیشن کے بعد سبسڈیز کا پہلا مرحلہ ہو گا جو موجودہ، آنے والی، چھپی ہوئی سبسڈیز اور ہنگامی واجبات اور تبادلہ کی لاگت کو 52 کھرب روپے بتاتا ہے۔
مزید پڑھیں: صنعتی صارفین کیلئے بجلی کے پیک آور ٹیرف اسکیم کا خاتمہ اور سبسڈی منظور
ڈاکٹر وقار مسعود خان کی سربراہی میں ایک ٹیم کے حالیہ جائزے میں تخمینہ لگایا گیا کہ سالانہ کُل سبسڈی تقریباً 2 کھرب روپے ہے، اس کی وضاحت کی گئی کہ بڑی مقدار میں گزشتہ سرمایہ کاری، قرضوں، گارنٹیوں اور غیر احاطہ شدہ قرضوں نے بھی مناسب منافع کی عدم موجودگی میں حکومت کو حقیقی اور ممکنہ نقصان پہنچایا، اسی طرح مالی سال 2020 کے اختتام تک اس طرح کے واجبات اور سبسڈیز کا مجموعی ذخیرہ 52 کھرب روپے رکھا گیا تھا جو گھریلو قرضوں کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ریشنلائزیشن منصوبے کے پہلے مرحلے کا ایک حصہ پہلے ہی پبلک سیکٹر کے بجلی گھروں، جیسے ایٹمی بجلی اور جوہری اور جنکوس کے معاملے میں ایکویٹی پر کم واپسی کی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس منصوبے میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی سے شروع کرتے ہوئے مختلف اقسام کے پروگرام کے ذریعے کم آمدنی والے صارفین کو بجلی پر سبسڈی فراہم کی جانی چاہیے، صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی کو یکم جولائی 2021 سے 3 روپے فی یونٹ صنعتی سپورٹ پیکیج کے خاتمے کے ذریعے ہدف بنایا جائے، بقایا جات کا حساب کتاب اور صنعتوں کے ساتھ دعوؤں کے تصفیے کو 30 جون 2020 تک حتمی شکل دی جائے گی، اس سے سبسڈی 75 ارب روپے کم ہونے کا امکان ہے۔