• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کا جلسہ: انارکی سے پہلے حالات کو سنبھالنا چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن

شائع December 13, 2020 اپ ڈیٹ December 14, 2020
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انقلاب برپا کریں—فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انقلاب برپا کریں—فوٹو: ڈان نیوز
جلسہ گاہ میں کارکنان کی آمد جاری ہے—اسکرین شاٹ
جلسہ گاہ میں کارکنان کی آمد جاری ہے—اسکرین شاٹ
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف اجلاس میں شریک ہوئے—اسکرین شاٹ
بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف اجلاس میں شریک ہوئے—اسکرین شاٹ
مریم نواز جلسہ گاہ پہنچ گئیں—اسکرین شاٹ
مریم نواز جلسہ گاہ پہنچ گئیں—اسکرین شاٹ
مریم نواز اور بلاول بھٹو بھی جلسہ گاہ میں شریک ہیں
مریم نواز اور بلاول بھٹو بھی جلسہ گاہ میں شریک ہیں

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے بنیادی رہنما اصول کا اعلان کردیا اور خبردار کیا کہ مجھے آنے والے دنوں میں انارکی دیکھ رہا ہوں لیکن اس سے پہلے ہمیں حالات سنبھال لینا چاہیے۔

مینار پاکستان میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس فقید المثال جلسے کے انعقاد پر پی ڈی ایم کے کارکنوں اور عوام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، آج مینار پاکستان کامیدان تنگی دامان کی شکایت کر رہا ہے،اس میدان کے باہر لاہور کی شاہراہیں عوامی سمندر سے محظوظ ہو رہی ہیں اورمیں آپ کے جلسے کو سلام پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 1940 کی قرار داد کے بعد آج اسی میدان میں مینار پاکستان کے سائے تلے جس عزم اور جس عہد کی تجدید کر رہے ہوں مستقبل کے لیے یہ سنگ میل ثابت ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست کی اس نزاکت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں اور اس معاشرے میں اس احساس کو فروغ پاتے دیکھ رہا ہوں، گجرانوالہ کے جلسے سے لے کر ملک کے تمام بڑے شہروں میں عوام کی بے پناہ شرکت سے ہونے والے اجتماعات اور آج لاہور میں فقیدالمثال اجتماع سے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور پاکستان کے اوپر ناجائز حکومت کے لیے اسٹبلشمنٹ نے جو دھاندلی کی تھی اور ایک ناجائز، غیرآئینی اور گندا کردار ادا کیا تھا، اس کے زخم اب گہرے ہوتے جارہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں خطرہ محسوس کر رہا ہوں کہ کہیں آنے والے دنوں میں ہمیں وہ حالات نہ دیکھنے پڑیں جہاں اسٹبلشمنٹ بمقابلہ پاکستان کے عوام نظر آئیں اور ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجائیں، یہ بڑے تشویش ناک حالات ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں آج متنبہ کرنا چاہتا ہوں، آج اپنی دفاعی قوت اور اس کی قیادت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، آج اسٹبلشمنٹ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اپنے عوام کے مقابلے کے سامنے ہٹ جائے، عوام کو راستہ دیجیے اور اسلام آباد پہنچنے دیجیے، پارلیمنٹ عوام کی ہے، طاقت اور حکومت عوام کی ہوگی، دھاندلی کا نظام نہیں چلے گا۔

'انارکی کا خطرہ ہے'

ان کا کہنا تھا کہ زخم گہرے ہوتے جارہے ہیں، احساسات پر غصے اور ناراضی کا عنصر بڑھتا چلا جا رہا ہے اورہم خیر خواہی کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ ہمیں ایک قوم کی طرح رہنا چاہیے، پاکستان ہے تو پاکستان عوام کا نام ہے، اسی عوام سے ادارے، عدلیہ، پارلیمنٹ، فوج اور دفاعی قوت بنتی ہے، اگر ادارے ایک دوسرے کے مقابلے میں آتے ہیں اور عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے تو پھر قومی یک جہتی کبھی برقرار نہیں رہ سکتی۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے اندر انارکی دیکھ رہا ہوں، ہمیں انارکی کی طرف جانے سے پہلے حالات کو سنبھالنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تحریک، یہ جدوجہد پاکستان میں آزاد جمہوری فضاؤں اورپاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے ہو رہی ہے، اور جب اسی مینار پاکستان کے مقدس مقام پر قرار داد پاس کی گئی تو ایک ایسی مملکت کی تصور کے ساتھ تھی کہ ایک طاقت ور اسلامی ملک جو امت مسلمہ کی قیادت اور دنیا بھرکے مسلمانوں اور مظلوموں کی آواز بنتا نظر آئے، جو دنیا بھر کے انسانی حقوق کی بات کرتا ہوا نظر آئے لیکن آج 72 سال گزرنے کے بعد اسٹبلشمنٹ کی بالادستی کی نتیجے میں ہمارا ملک ایک غلام ملک کی طرح نظر آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج عہد کریں کہ ہم نے اس ملک کو آزاد رکھنا ہے، اس ملک کو عالمی اسٹبلمشنٹ سے آزاد رکھنا ہے، ہم نے اپنی فوج کو ان کے دباؤ سے نکالنا ہے، ہم نے اپنے عوام اور عدلیہ کو ان کے دباؤ سے نکالنا ہے، ایک آزاد قوم کی طرح دنیا میں ہم نے اپنی شناخت پیدا کرنی ہے۔

مولانافضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم محسوس کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر جو 73 سال تک بھارت ہڑپ کرنے کی جرات نہیں کرسکا، آج بھارت نے کشمیر کوہڑپ کردیا اور قبضہ کرلیا، اس کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں، یا عمران خان کی حکومت نے پاکستان کو اتنا کمزور کر دیا ہے کہ ہم کشمیر کا تحفظ نہیں کرسکے ہیں یا یہ پھرعمران خان نے کشمیر کا سودا کیا ہے اور بھارت کے ہاتھ بیچا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم کشمیریوں کو آزادی نہیں دلا سکے، جمہوریت، معیشت اورکچھ نہیں دے سکے حالانکہ ہم نے کشمیر کی ماؤں کی عزت و ناموس پر سیاست کی، کس حوالے سے کی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک بیان دے رہا ہے کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارا بجٹ صفر سے نیچے چلا گیا ہے اورسالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی کم ہوگیا ہے، مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے۔ قوت خرید کو ختم کردیا ہے، نوجوان کا مستقبل تاریک کردیا گیا، سرکاری اداروں سے 30 لاکھ سے زیادہ ملازمین برطرف کردیے گئے اور ادارے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کو مطمئن کرنا ہے اورہر شعبے کے لوگوں کو مطمئن کرنا ہے تو آئیں ہمت کریں اور انقلاب برپا کریں، ہم اس ملک میں کسی کی غلامی کے لیے پیدا نہیں ہوئے، ہم آزاد قوم ہیں، آزادی کے جذبے کے ساتھ اس ملک کو ترقی دینی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک انٹرویو میں مجھ سے پوچھا گیا کہ عمران خان بھی کہتا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے اور وہ بھی دھرنا دے رہا تھا تو دونوں میں کیا فرق ہے تو میں نے کہا کہ اس وقت الیکشن کمیشن متنازع نہیں تھا، اس وقت آر ٹی ایس کا نظام بند نہیں ہوا تھا، اس وقت کسی جنرل آصف غفور نے یہ نہیں کہا تھا کہ و تعز من تشا و تذل من تشا، یہ ساری چیزیں اس وقت نہیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 4 حلقوں پر اعتراض ہے، کہنے لگا 70 پر اعتراض ہے ہم نے کہا کہ بسم اللہ، آخر حساب ہی ختم ہوگیا، دھرنے میں آیا تو کسی نے کرایا، حکومت میں آیا تو کسی نے دلائی لیکن اب یہ سیاست نہیں چلے گی۔

پی ڈی ایم اتحاد کے رہنما اصول

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم نے اس تحریک کا آغاز کیا تھا اور جو مقاصد متعین کیے تھے، ان کو بیان کرنا چاہتا ہوں، ہم نے سربراہی اجلاس میں جن نکات پر اتفاق کیا ہے اس میں سب سے پہلی بات آئین پاکستان کی اسلامی، جمہوری، پارلیمانی اور وفاقی حکومت کا تحفظ کرنا اور آئین کی اس حیثیت کو عملی شکل دینا اور عملی اقدامات کرنا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ پارلیمان کی خود مختار ہوگی اور پارلیمان کو کسی کی یرغمال نہیں ہونے دیا جائے گا، سیاست سے اسٹبلشمنٹ اور انٹیلی جنس اداروں کے کردار کا خاتمہ کیا جائے گا اور ایک آزاد عدلیہ کے قیام کا تصور دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے اصلاحات اور اس کا انعقاد کیا جائے گا، عوام کے بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق، صوبوں کے حقوق اور اٹھارویں ترمیم کا تحفظ کیا جائے گا، مقامی حکومتوں کا مؤثر نظام اور اس کا قیام ہمارے مقاصد میں ہوں گے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ اظہار رائے اورمیڈیا کی آزادی کا تحفظ، انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ، مہنگائی، بے روزگاری، غربت کے خاتمے کے لیے ہنگامی معاشی منصوبہ ہمارے بنیادی مقاصد ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پی ڈی ایم کا اتحاد وجود میں آیا ہے اور اس کے بنیادی رہنما اصول کا اعلان کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جنوری کے آخر میں یا فروری کے اوائل میں اسلام آباد کی طرف پوری قوم مارچ کرے گی اور پارلیمنٹ کے استعفے ہم اپنے ساتھ لے کر جائیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم ایسی پارلیمنٹ پر اعتماد کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اس پارلیمنٹ کے ذریعے ناجائز حکومت کو چلنے دیں گے، اس کا خاتمہ کرکے دم لیں گے اور ووٹ کا مقدس امانت عوام کو واپس دلا کر دم لیں گے۔

سلیکٹرز سن لو، ہم آرہے ہیں، بلاول

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ سلیکٹرزسن لو آپ کو عوام کا فیصلہ ماننا پڑے گا، ہم اسلام آباد آرہے اور جعلی حکمران سے استعفیٰ لے لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کا فیصلہ ماننا پڑے گا، اب کوئی راستہ نہیں ہے، مذاکرات کا وقت گزر چکا ہے، اب لانگ مارچ ہوگا، اسلام آباد! ہم آرہے ہیں، اسلام آباد پہنچ کر نااہل، ناجائز اور سلیکٹڈ وزیراعظم کا استعفیٰ چھین کر رہیں گے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، فون کرنا اور رابطہ کرنا بند کریں، ہمارے درمیان کوئی دراڑ نہیں ہوگی اور ہم سب مل کر آپ کی کٹھ پتلی کو بھگائیں گے، اس بھگا کر پھر بات ہوسکتی ہے، آپ کو عوام کا فیصلہ سننا پڑے گا، گلگت سے لے کر لاہور، لاہور سے کراچی، کراچی سے کوئٹہ اورکوئٹہ سے پشاور تک ایک آواز گونج رہی ہے کہ میرے ووٹ پر ڈاکا نامنظور، لاہور پر ڈاکا، پنجاب پر ڈاکا، پنجاب پر ڈاکا، جمہور پر ڈاکا، آئین پر ڈاکا نامنظور۔

مینار پاکستان میں اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے مینار پاکستان میں جلسے کے لیے پنڈال سجا لیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری سمیت دیگر رہنما جلسہ گاہ میں موجود ہیں۔

مینار پاکستان میں مختلف جماعتوں کے کارکنان کی بھی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنی جماعتوں کے پرچم تھامے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں۔

فکس میچ کے ذریعے نواز شریف کو نکال دیا گیا، مریم نواز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسے سے خطاب میں کہا ہے کہ تین سال تک این آر او نہ دینے کا اعلان کرنے والا خود این آر او مانگ رہا ہے لیکن تابعدار کو این آر او نہیں ملے گا۔

مریم نواز نے لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں آج مینار پاکستان میں نہ صرف تاریخی جلسہ کیا گیا، تین سال کون فرعون کے لہجے میں کہتا تھا کہ این آر او نہیں دوں گا لیکن اب خود این آر او مانگ رہا ہے لیکن نواز شریف اس کو این آر او نہیں دے گا۔

وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ 2011 میں آپ نے مینار پاکستان میں جلسہ کیا تھا، عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جلسہ کس نے کروایا تھا، وہ جلسہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل شجاع پاشا نے کروایا تھا، پھر 2013 کے انتخابات میں عبرت ناک شکست ہوئی تو تمہیں سمجھ آگیا کہ عوام کے ووٹوں سے وزیراعظم بنوں گا نہیں تو تابعداری کرنے سے وزیراعظم بنوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پھر کسی نے کہا کہ دھاندلی دھاندلی کا شور مچاؤ اور نواز شریف نے ان دھرنوں کے باوجود جو تم نے جنرل پاشا اور جنرل ظہیرالاسلام کی مدد سے کئے تھے، لوڈ شیڈنگ ختم کی اور عوام کی خدمت کی۔

انہوں نے کہا کہ پھر تمہیں نئی بات سوجھی اور کرپشن کا راگ الاپنا شروع کیا اور جسٹس کھوسہ نے تم کو کہا کہ میرے پاس درخواست لاؤ میں تمھاری مدد کرتا ہوں اور فکس میچ کے ذریعے تم نے نواز شریف کو اقامہ پر باہر نکلوایا۔

جلسے کے آخر میں آمروں کی نماز جنازہ پڑھیں گے، اختر مینگل

بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے کہا کہ میں آج کے جلسے کے منتظمین، پاکستان مسلم لیگ (ن) اورپی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو مبارک باد اور سلام پیش کرتا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ جلسوں کو جلسی کہا گیا اورمیں بھی ان کو جلسے نہیں کہتا بلکہ ان کو میں ان غیر جمہوری قوتوں، آمروں کی پیداوار کا، طاقتوں جنہوں نے 70 برسوں سے اس ملک کے آئین کو اپنےگھرکی لونڈی سمجھا ہوا ہے اور 70 برسوں سے سنگینوں سے حکمرانی ہے اور ان جلسوں کو نماز جنازہ سمجھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ اس جلسے کے آخر میں مولانا فضل الرحمٰن ان آمروں اور ہمارا استحصال کرنے والی قوتوں کی نماز جنازہ بھی پڑھائیں گے۔

اختر مینگل نے کہا کہ 'بلوچستان میں جو شورش ہے کیا اس کے ذمہ دار ہم ہیں یا کوئی اور ہے، 70 برسوں میں ہم نے ایک دن بھی چین کا نہیں دیکھا، ہمارے گاؤں اجاڑ دیے گئے، ہمارے بچے چھین لے گئے، بہنوں کے سروں سے دوپٹے چھین لیے گئے، ماؤں کے سامنے ان کے نوجوان بچوں کا قتل عام کیا گیا لیکن ہم نے جمہوریت کا پرچم بلند رکھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ آج آپ جن نام نہاد حکمرانوں، خلائی مخلوق، اس قوت کے خلاف جس نے آئین کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھ کر ہمیشہ ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں اور ان کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی فیصلوں کا ذمہ دار کون ہے۔

یہ بیانیہ نواز شریف کا نہیں بلکہ عوام کا ہے، ساجد میر

مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں پی ڈیم ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت اہل حدیث کے سربرہ ساجد میر نے کہا کہ یہ بیانیہ صرف نواز شریف نہیں بلکہ اپوزیشن، پی ڈی ایم اور عوام کا بیانیہ ہے۔

جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ ساجد میر نے کہا کہ میں لاہور کے شہریوں کو مبارک باد اور خرج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت کی تمام رکاوٹوں اور جھوٹے ڈراموں کے باوجود اور روکنے کے باوجود مینار پاکستان کے سائے میں عظیم الشان اورقابل دید جلسہ منعقد کرکے حکومت اور اس کے کارندوں کو زبردست ناکامی اور شکست دے دوچار کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا بنایا ہوا یہ نیا پاکستان کیسا لگ رہا ہے، نام نہاد پاکستان سے وہی پاکستان اچھا تھا جس میں مہنگائی آج کے مقابلے میں بہت کم تھی اور عوام دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ نئے پاکستان کی حکومت قرنطینے میں ہے، معیشت کو آئی سی یو میں ڈال دیا ہے اور عوام مہنگائی اور بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔

ساجد میر کا کہنا تھا کہ یہ بیانیہ نواز شریف کا نہیں بلکہ پوری اپوزیشن اور پی ڈی ایم کا ہے، اس کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کا استعمال مختلف ہوسکتا ہے لیکن اس بیانیے کی تصدیق ہر شہری کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیانیہ یہی ہے کہ اس ملک کے عوام کو اپنی حکومت اپنے ووٹوں سے منتخب کرنے کا حق اور الیکشن کا حق ملنا چاہیے، عوام کے ووٹ سے جو حکومت آئے، اس کو اور اس کے ووٹ کو عزت ملے اس کو بغیر کسی مداخلت اور بغیر رکاوٹ کے حق حکومت کے لیے آزاد ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس بیانیے کی تصدیق کراچی میں مریم نواز کے ساتھ پیش آنے والے واقعے سے ہوئی، اس واقعے کی تحقیقات خود فوج نے کی اور اس میں بھی اس بیانیے کی تصدیق کی اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے کتاب لکھ کر تصدیق کی کہ فوج ادارے انتخابات اور حکومت کے کاروبار میں آج تک مداخلت کرتے آئے ہیں۔

ساجد میر نے کہا کہ یہی وہ مداخلت ہے جس کو ختم کرنے کے لیے ہم میدان میں آئے ہیں، ووٹ کو عزت دے کر عوام کو حق حکومت واپس دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ عوام کی مدد سے ہم اس بیانیے کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔

افتخار حسین نے قرار دادیں پیش کیں

اے این پی کے سیکریٹری جنرل اور پی ڈی ایم کے ترجمان نے قرار داد پیش کی اور کہا کہ اس عظیم الشان کے توسط سے اس حکومت کو خبردار کرتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم پاکستان کی وفاقیت کی علامت ہے، اس کو کسی صورت نہ چھیڑا جائے اور صوبائی خود مختاری کو نہ چھیڑا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بے گناہ افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، بے گناہ ہوتو رہا اور اگر گناہ گار ہوں تو سزا دی جائے، پمز ہسپتال میں ایک آر ڈیننس جاری ہوا ہے جہاں ڈاکٹروں اور ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں اور اس کو جلدی واپس لیا گیا۔

افتخار حسین نے کہا کہ گوادر شہر کے گرد لگائی گئی باڑ کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو جلد از جلد ہٹایا جائے، کورونا اور وبا سے جان بچائی جائے، ماسک، سنیٹائزر کو استعمال کیا جائے لیکن ہم عمرانی کورونا کو نہیں مانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کا جلسہ ہوا نہیں تھا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ جلسہ ناکام ہوگیاہے، میں ان سے کہتا ہوں کہ یہاں کر عوامی سمندر دیکھو، لاہور نے آج دکھا دیا ہے، لاہور والو تم نے کر کے دکھایا ہے۔

حالات انقلاب کے لیے سازگار ہیں، محمود خان اچکزئی

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن بات کرنا چاہتے ہیں تو ان سے کریں، اگر وہ نہیں مانتے ہیں تو ترکی کے طرز پر انقلاب کی بات پکی ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالات انقلاب کے لیے پکے ہیں، اگر ہماری اسٹبلشمنٹ پیچھے نہیں ہٹی تو مریم نواز آپ رہنمائی کریں، ہم آپ کا بھرپور ساتھ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترکی کے طرز پر اس اسٹبلشمنٹ کے خلاف پر پورے پاکستان کو جلسہ گاہ میں تبدیل کرتے ہیں پھر دیکھیں خلق خدا نہ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بالکل انقلاب فرانس کی طرح تاریخ نے مریم نواز، بلاول بھٹو اورمولانا فضل الرحمٰن کو ایک موقع دیا ہے، بسم اللہ کیجیے، عوامی انقلاب، اسلامی انقلاب اور غریبوں کے انقلاب کی رہبری کریں۔

عدم تشدد کی بات کرنے والوں کو غدار قرار دیا گیا، امیر حیدر ہوتی

اے این پی کے رہنما امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ لاہور آپ کا شکریہ ہم پختون وفاداری کی قدر کرتے ہیں اور ہمیں آپ لوگوں کی وفاداری کی قدر ہے اورلاہور نے آج ثابت کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا ایک اقامے کی بنیاد پر ارشد ملک جیسے جج کے ذریعے نااہل کیا گیا، ان کی بیٹی کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا تاکہ وہ ان کی کمزوری بنے لیکن وہ ان کی طاقت بن گئی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب کی خدمت کرنے والے اور ملک کے سب سے محنتی وزیراعلیٰ شہباز شریف کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور ان کے بیٹے کو بھی قید کرکے پنجاب ایک ایسے آدمی کے حوالے کردیا گیا جو یونین کونسلر منتخب نہیں ہوسکتا۔

امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ سو سال قبل باچاخان نے عدم تشدد کی بات کی لیکن ان پر تشدد ہوا اور انہیں غدار قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جو ظلم اور ناانصافی ہورہی ہے، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ جو بات باچاخان نے آج سے کئی 80، 90 سال پہلے کہی تھی وہ سچ ثابت ہو رہی ہے۔

قبل ازیں جلسہ گاہ پہننچے سے قبل پی ڈی ایم کے صدر اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے صدر سردار اختر مینگل اور عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے جہاں انہیں ظہرانہ دیا گیا۔

اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ریلی کی قیادت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ایاز صادق کے گھر پہنچے، جس کے بعد وہاں مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں اہم اجلاس ہوا۔

پی ڈی ایم رہنماؤں کے اجلاس میں آئندہ کے لائحہ سے متعلق مشاورت کی گئی، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ سے جلسہ گاہ روانہ ہوئے۔

خیال رہے کہ آج کا جلسہ اپوزیشن کی حکومت مخالف شروع کی گئی تحریک کے پہلے مرحلے کا آخری جلسہ ہے جس کے بعد یہ اپوزیشن اتحاد دوسری حکمت عملی اپنانے کا ارادہ رکھتا ہے، جلسے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کی جدوجہد کے ’فیصلہ کن مرحلے‘ کا اعلان بھی متوقع ہے۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے پی ٹی آئی میں کسی قسم کی مشاورت نہ ہونے کا انکشاف

یاد رہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے حکومت مخالف جلسوں کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے ہوا تھا جس کے بعد یہ اتحاد کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان میں جلسے کرچکا ہے۔

اس تمام صورتحال کے حوالے سے ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جلسے کے لیے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رضاکار ونگ انصار الاسلام کے 3 ہزار رضاکار سیکیورٹی کے فرائض انجام رہے ہیں جبکہ خواتین شرکا کے لیے الگ سے گیٹ مختص کیا گیا ہے۔

اپوزیشن اتحاد نے آج کے اس جلسے کے لیے سیاسی ماحول کو کافی گرم کیا ہوا ہے اور اس سلسلے میں پی ڈی ایم میں شریک جماعتوں کے قیادت نے مختلف ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

وہی دوسری جانب اگرچہ حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کے جلسے کے راستے میں رکاوٹیں نہ کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم حکومت نے جلسے کے لیے کرسیاں، میز، ٹینٹ وغیرہ فراہم کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیا تھا۔

حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر پی ڈی ایم کو جلسے مؤخر کرنے کا کہا گیا تھا تاہم اب بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے آخری لمحات میں اتوار کے جلسے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور وہ جلسے میں آنے والے شرکا کو روکنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور اپوزیشن کو یہ موقع دینا چاہتی ہے وہ اکتوبر 2011 میں اسی مقام پر کیے گئے عمران خان کے جلسے سے مقابلہ کرے۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کو جلسے کے لیے فری ہینڈ دینے پر شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جدوجہد کا اگلا مرحلہ جنوری میں شروع ہوگا جس میں پی ڈی ایم آخری شو سے قبل ملک بھر میں 16 مزید ریلیوں کا منصوبہ رکھتی ہے۔

آخری شو میں پی ڈی ایم جماعتوں کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے شامل ہیں۔

لیگی رہنما کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ توقع کر رہے ہیں کہ جنوری میں پی ڈی ایم لانگ مارچ سے قبل کچھ ’پردے کے پیچھے‘ پیش رفت ہوسکتی ہے۔

مریم اور بلاول کا مینار پاکستان پر پہلا جلسہ

مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری—تصویر: ڈان نیوز
مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری—تصویر: ڈان نیوز

یہاں یہ بھی واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) مینار پاکستان پر ایک جلسہ کرنے جارہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا یہ اس مقام پر پہلا جلسہ ہے۔

اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بھی مینار پاکستان میں سیاسی جلسے میں یہ پہلی شرکت ہوگی۔

اس مقام پر جاکر جلسے سے ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو کے 1986 کے منار پاکستان کے تاریخی جلسے کی یادیں تازہ ہونے کی اُمید ہے۔

جلسے کے لیے سیاسی گہما گہمی

آج کے جلسے میں کارکنان کی شرکت یقینی بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے لاہور میں سیاسی حل چل دکھائی اور مریم نواز نے 14 حلقوں میں کارنر میٹنگ بھی کیں۔

انہوں نے لوگوں سے خطاب میں کہا کہ وہ اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور پی ڈی ایم کے منار پاکستان جلسے میں شریک ہوں تاکہ اس حکومت کو گھر بھیجا جاسکے۔

جلسے سے قبل ہفتے کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے ڈان سے گفتگو میں منار پاکستان پر جلسے کی اہمیت پر زور دیا۔

دہشت گردی کا خطرہ

ادھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ’دہشت گردی کے خطرے کے الرٹ‘ اور کورونا وائرس کی صورتحال کے پیش نظر پی ڈی ایم کو منار پاکستان کا جلسہ ملتوی کرنے کا کہا تھا۔

اس کے علاوہ صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے بھی بتایا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کو قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) کی جانب سے جاری کیے گئے خطرے کے الرٹ سے متعلق آگاہ کردیا تھا۔

اسی طرح لاہور پولیس کی جانب سے بھی بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز شریف کو بھی دہشت گردی کے خطرے سے متعلق الرٹ جاری کیا تھا۔

یاد رہے کہ نیکٹا کی جانب سے 13 دسمبر کو لاہور میں ممکنہ دہشت گردی کا الرٹ جاری کیا گیا ہے، اس حوالے سے 2 الگ الگ نوٹیفکیشنز بھی جاری کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 31 دسمبر سے پہلے سارے استعفے میری جیب میں ہوں گے، بلاول بھٹو

ان نوٹیفکیشنز میں کہا گیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور حزب اسلامی افغانستان (ایچ آئی اے) کی جانب سے پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

جلسے سے قبل کارکنان کو جوش دلانے کے لیے ریلی نکالی گئی—تصویر: مسلم لیگ (ن) ٹوئٹر
جلسے سے قبل کارکنان کو جوش دلانے کے لیے ریلی نکالی گئی—تصویر: مسلم لیگ (ن) ٹوئٹر

ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ 'اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشت گرد 13 دسمبر کو دہشت گرد کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، اگرچہ اس حوالے سے تفصیلات دستیاب نہیں کہ حملہ کہاں کیا جاسکتا ہے اور نشانہ کون ہوگا، لیکن یہ اس تاریخ کے انتخاب کی بڑی وجہ مینار پاکستان پر عوام کا بڑے اجتماع ہوسکتی ہے'۔

دوسرے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ '9 دسمبر کو مغربی سرحد کے اس پار ایچ آئی اے کے کارندوں کا اجلاس ہوا جس میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا'۔

پی ڈی ایم کیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو اپنے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔

ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔


اضافی رپورٹنگ: جاوید حسین، رانا بلال

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024