سراج قاسم تیلی ایک داستان چھوڑ گئے
سراج قاسم تیلی کی وفات سے کراچی اور ملک بھر کی تجارتی سیاست میں ایک پُر نہ ہونے والا خلا پیدا ہوگیا ہے۔ سراج قاسم نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ انہوں نے ناصرف اپنے کاروبار میں ترقی کی بلکہ وہ کراچی کی تجارتی سیاست کے بے تاج بادشاہ بھی بنے۔ وہ دوٹوک اور بلا کسی لیت و لعل کے بات کہنے کے عادی تھے، جس کی وجہ سے اکثر لوگ ان سے نالاں ہوجاتے تھے۔
سراج قاسم تیلی نے دھوراجی برادری کے بڑے صنعتی خانوادے میں مئی 1953ء کو آنکھ کھولی۔ سراج قاسم تیلی کی گٹھی میں کاروبار اور صنعت پڑی ہوئی تھی، اور ان کے خاندان کے متعدد افراد ٹیکسٹائل اور مشروبات کی صنعت سے وابستہ تھے۔
ان کو لڑکپن سے ہی کرکٹ کا شوق تھا۔ وہ سولجر بازار میں اپنے پڑوسی طارق سعید کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے، اور اس وقت دونوں کو گمان تک نہ تھا کہ لڑکپن کا یہ ساتھ اور باہمی مقابلہ تجارتی سیاست میں بھی رہے گا۔
سراج قاسم نے 1974ء میں گورنمنٹ کالج کامرس اینڈ اکانومکس سے گریجویشن کیا۔ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز ٹیکسٹائل کے شعبے سے کیا اور اپنے خاندان کی دو ٹیکسٹائل ملز گل احمد اور نقشبندی میں پیشہ ورانہ زندگی کے ابتدائی 11 سال گزارے، جس کے بعد 1985ء میں اپنے ایک اور خاندانی کاروبار پاکستان بیوریج سے وابستہ ہوئے اور پھر اسی کے ہوکر رہ گئے۔
سراج قاسم نے سائٹ میں جب صنعتی صورتحال کی ابتری دیکھی تو انہوں نے صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تجارتی سیاست اور لابنگ میں دلچسپی لینا شروع کی اور 1988ء میں سائٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین منتخب ہوئے۔
تجارتی سیاست میں ان کے ایک اور ساتھی ذکریا عثمان کا کہنا ہے کہ ’اس زمانے میں اعجاز شفیع سائٹ کے چیئرمین تھے، مگر سائٹ کے صنعتی علاقے کا انفرااسٹرکچر تباہ حال تھا۔ اسی دوران پیپلز پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیرِاعظم منتخب ہوئیں۔ سراج قاسم نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ دیا اور صنعتی علاقے کے مسائل ان کے سامنے رکھے۔ جس پر بے نظیر بھٹو نے سائٹ کے علاقے کے لیے خصوصی فنڈز مختص کیے، اور بجلی کی فراہمی بہتر بنانے کے لیے نیا گرڈ قائم کیا۔ یوں سائٹ ایسوسی ایشن میں سراج قاسم ایک ہیرو بن گئے‘۔
اسی دوران ان کے کرکٹ کے ساتھی طارق سعید کراچی ایوانِ تجارت و صنعت (کے سی سی آئی) کے بادشاہ گر بن چکے تھے، مگر تاجروں اور صنعت کاروں کو ان سے بہت سی شکایات تھیں۔ سراج قاسم نے کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی میں جگہ بنائی اور وہاں پر طارق سعید کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا اور بزنس مین گروپ یا بی ایم جی کی بنیاد رکھی۔
1996ء میں ان کے دوست ذکریا عثمان کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے نائب صدر بنے مگر 1998ء میں سراج قاسم نے بھرپور مہم کے ذریعے انتخابات میں یک طرفہ نتائج کو اپنی طرف منتقل کیا اور انتخابات میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔
اس سال عدالتوں میں بہت سے مقدمات چلے اور سراج قاسم پہلی مرتبہ تقریباً ایک ماہ قائم مقام صدر کراچی ایوانِ تجارت و صنعت رہے۔ اس کے بعد سے بی ایم جی کی کامیابی کا جو سفر شروع ہوا وہ تاحال جاری ہے۔ بی ایم جی کے سربراہ ہونے کے باوجود سراج قاسم اپنے ساتھیوں کو الیکشن میں آگے کرتے رہے اور کامیاب کرواتے رہے، جبکہ خود پہلی مرتبہ 04ء-2003ء میں کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے صدر منتخب ہوئے، یعنی وہ اس وقت تک کراچی ایوانِ تجارت و صنعت اور سائٹ ایسوسی ایشن کے بادشاہ گر بن چکے تھے۔
معروف صنعت کار ایس ایم منیر کا کہنا ہے کہ سراج قاسم ان کے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھے اور انہوں نے ساتھ مل کر طارق سعید کا کراچی ایوانِ تجارت و صنعت میں مقابلہ کیا، مگر مزاج کی سختی اور غلط فہمیوں کی وجہ سے ایس ایم منیر بھی ان کے ساتھ زیادہ دیر نہ چل سکے اور وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔
طارق سعید اور ایس ایم منیر نے کراچی ایوانِ تجارت و صنعت سے نکلنے کے بعد ملک گیر تجارتی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور بزنس مین پینل کے نام سے اپنا گروپ تشکیل دیا۔ سراج قاسم نے کبھی ایف پی سی سی آئی میں اس گروپ کی حمایت نہیں کی بلکہ کھل کر مخالفت کی اور اکثر انتخابات کا بائیکاٹ کیا، بلکہ ایف پی سی سی آئی کی جگہ ایوان ہائے تجارت و صنعت کا الگ پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کرتے رہے۔
کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے موجودہ صدر شارق ووہرہ تجارتی سیاست میں سراج قاسم کو اپنا گرو مانتے تھے۔ ان کے مطابق ’سراج قاسم ایک سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔ کاروباری برادری کی اکثریت نے دیگر ملکوں خصوصاً کینیڈا کی شہریت لے رکھی ہے، مگر سراج قاسم کو پاکستان پر یقین اور بھروسہ تھا اور دوستوں کی فرمائش کے باوجود انہوں نے کسی اور ملک کی شہریت لینے سے ہمیشہ انکار کیا‘۔
ٹریول ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چیئرمین یحییٰ پولانی کا کہنا تھا کہ ’سراج قاسم ان کے چھوٹے بھائی طارق پولانی کے دوست تھے، مگر تجارتی سیاست میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کے مدِمقابل الیکشن لڑے۔ الیکشن کے اختتام پر سراج اور میں ساتھ سیگار پیتے تھے‘۔ یحییٰ پولانی کا دعوٰی ہے کہ سراج قاسم ان کے علاوہ کسی کی بات نہیں سنتے تھے۔
سال 2009ء میں سانحہ بولٹن مارکیٹ میں تباہ ہونے والی مارکیٹوں اور کاروبار کی بحالی کے لیے سراج قاسم تیلی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ انہوں نے جل کر خاکستر ہونے والے کاروبار کو دوبارہ کھڑا کرنے اور تباہ حال عمارتوں کی تعمیر کے لیے وفاقی حکومت سے 3 ارب روپے کی معاونت حاصل کی اور نہایت شفاف طریقے سے یہ رقم متاثرین میں تقسیم کی، اور ایک ماہ کے اندر اندر تمام کاروباری افراد کو ان کے کلیمز دلوائے۔ سراج قاسم تیلی کی خدمات پر انہیں صدر آصف علی زرداری نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔
سراج قاسم برجستہ اور منہ پر مخالفت کرنے والے شخص تھے۔ جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد نواز شریف جب تیسری مرتبہ وزیرِاعظم بنے تو کراچی کے ایک ہوٹل میں تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ اس دوران نواز شریف نے کراچی میں اپنا زمانہ اسیری یاد کرنا شروع کیا اور سراج قاسم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں کراچی کے جیل میں تھا تو آپ نے مجھے پیپسی تک نہیں پلائی، جس پر سراج قاسم نے برجستہ جواب دیا کہ میاں صاحب آپ پیپسی نہیں کوک پیتے ہیں، اور یوں محفل زعفران زار ہوگئی‘۔
سراج قاسم کا سخت رویہ اور تنقیدی مزاج ہی تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے وزرا خصوصاً اسحٰق ڈار نے کراچی ایوانِ تجارت و صنعت آنے سے انکار کردیا تھا۔ جس پر سراج قاسم کے کہنے پر کراچی ایوانِ تجارت و صنعت نے کئی سال تک وفاقی حکومت کو بجٹ تجاویز پیش نہیں کیں۔
سال 11-2010ء میں جب سراج قاسم کے قریبی دوست سعید شفیق کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے صدر تھے تو شہر میں امن و امان کی صورتحال نہایت مخدوش تھی۔ بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے تاجر اور صنعت کار برادری بہت پریشان تھی، مگر سب سے زیادہ متاثر دکاندار تھے جنہیں ہر وقت جان جانے کا ڈھڑکا لگا ہوا تھا۔
کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تاجروں اور صنعت کاروں کے دباؤ پر صدر کے سی سی آئی سعید شفیق نے ہڑتال کا اعلان کیا، مگر بعد میں جب سراج تیلی کا صدر آصف علی زرداری سے رابطہ ہوا تو انہوں نے ہڑتال کے بجائے احتجاج کا اعلان کردیا۔ لیکن متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ہڑتال کی ناصرف حمایت کی بلکہ وہ ہڑتال میں شامل بھی ہوگئی۔ سراج قاسم اپنے ساتھیوں کے ساتھ پولو گراونڈ میں احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کو وزیرِ اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس دونوں سے دباؤ پڑ رہا تھا۔ پیپلزپارٹی کہتی کہ ہڑتال نہ کرو اور گورنر ہاؤس کہتا کہ ہڑتال کی جائے۔ ایسے میں پولو گراونڈ میں ایک احتجاجی ریلی پہنچی جس میں تاجروں کے علاوہ ایم کیو ایم کارکنان بھی شامل تھے جنہوں نے کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے کیمپ پر حملہ کردیا اور توڑ پھوڑ ہوئی۔ اس طرح میرے اور سراج قاسم کے درمیان فاصلے بڑھ گئے اور 10 سال کی رفاقت میں دراڑ پڑ گئی۔ جسے بعد میں سراج قاسم نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حل کرلیا‘۔ عتیق میر کا کہنا تھا کہ سراج قاسم طبقات کے قائل نہ تھے وہ سب کے کام آتے تھے۔
پیپلز پارٹی سے قرب کے باوجود سراج قاسم نے شہر میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بہت توانا آواز بلند کی اور خصوصاً سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگز کے خلاف کھل کر بات کی۔ انہوں نے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کو مجبور کیا کہ وہ رینجرز کی موبائل میں بیٹھ کر ان علاقوں میں جائیں جنہیں نوگو ایریا کہا جاتا ہے۔ سراج قاسم تیلی نے کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کے پلیٹ فارم سے شہر میں گرینڈ آپریشن کا مطالبہ بھی کیا۔
بی ایم جی گروپ قائم کرنے کے بعد سراج قاسم کی ایوانِ تجارت و صنعت کی سیاست پر گرفت بتدریج اتنی مضبوط ہوگئی کہ کوئی بھی فرد بی ایم جی کے مدِمقابل انتخابات لڑنے کی ہمت نہیں کرتا تھا، اور سراج قاسم جس کو چاہتے اس کو اپنا نمائندہ منتخب کرتے۔
پاکستان کے سب سے بڑے اور قدیم ایوانِ تجارت و صنعت کی کمان کسی ایک فرد کے ہاتھ میں ہو اور اس کا کہا پتھر پر لکیر بن جائے تو رعب بڑھنے کے ساتھ ساتھ تنقید سننے کی عادت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ سراج قاسم میں گزشتہ چند سال سے یہ رویہ تیزی سے پروان چڑ رہا تھا۔ بسا اوقات سراج قاسم کے سامنے چیمبر کے صدر کی حیثیت بھی ثانوی ہوکر رہ جاتی تھی، جس کی وجہ سے متعدد سفارتی تقاریب میں بدمزگی بھی دیکھی گئی۔ جبکہ سراج قاسم کی طرف سے بڑے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو صحافیوں کے سامنے ڈانٹنا یا چپ کرا دینا عام سے بات تھی۔
گزشتہ بجٹ کی بات ہے کہ وفاقی بجٹ کے پیش ہونے کے بعد میڈیا ایوانِ تجارت و صنعت کے صدر جنید ماکڈا سے ان کے خیالات جاننا چاہتا تھا، مگر پہلے سراج قاسم پھر دیگر قائدین نے خطاب شروع کردیا۔ اس موقع پر ہمارے ایک صحافی دوست شہریار نے ان کی توجہ اس جانب دلائی کہ ہم کے سی سی آئی کے صدر جنید ماکڈا کی بات سننا چاہتے ہیں، جس پر سراج قاسم غصے میں آگئے۔
اس کے کچھ دیر بعد ایک ٹی وی چینل سراج قاسم کا انٹرویو کررہا تھا اور اینکر کے منہ سے غلطی سے بی ایم جی کی جگہ یو بی جی نکل گیا اور اس معمولی غلطی پر بھی سراج قاسم سیخ پا ہوگئے اور انٹرویو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے اینکر کو سکھاؤ کہ وہ کس سے بات کررہا ہے۔
اسی طرح چند ماہ قبل نیپرا نے ’کے الیکٹرک‘ کے لائسنس کے حوالے سے عوامی سماعت کی تھی، اور وہاں سراج قاسم نے لائسنس میں تبدیلی اور نئے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی حمایت کی۔ جس پر چیئرمین نیپرا نے پوچھا کہ کیا کراچی کی کاروباری برادری یہ کام کرنے کو تیار ہے، ایسا نہ ہو کہ ’کے الیکٹرک‘ کا لائسنس بھی تبدیل کردیا جائے اور کوئی آئے بھی نہیں تو وہاں بھی سراج قاسم اور چیئرمین نیپرا میں کسی قدر تلخی پیدا ہوئی۔
سماعت میں وقفے کے دوران سراج قاسم صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کررہے تھے کہ ایک صحافی نے انہیں یاد دلایا کہ مشرف دور میں جب اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی آفتاب شیرپاؤ نے عقیل کریم ڈھیڈھی کے گھر ہونے والی ملاقات میں آپ کو صنعتی علاقوں کے لیے الگ ڈسٹری بیوشن کمپنی بنانے کی پیشکش کی تھی، تب بھی آپ نے وہ پیشکش قبول نہیں کی تھی اور آج بھی آپ کوئی وعدہ نہیں کررہے، تو پھر آپ لائسنس میں تبدیلی کیوں چاہ رہے ہیں؟ اس سوال پر بھی سراج قاسم تیلی نے ناراضی کا اظہار کیا اور جواب دینے کے بجائے صحافی کو ذاتی نوعیت کے جملے بولے۔
سراج قاسم کے رویے کی سختی اپنی جگہ مگر انہوں نے کراچی شہر کے لے بہت کچھ کیا اور وہ بہت کچھ کرنا چاہتے بھی تھے۔ وہ اس شہر اور اس کے لوگوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے شہر کے امیج کو بہتر بنانے کے لیے بھی بہت کام کیا۔ وہ اپنے پیچھے ایک تاریخ چھوڑ گئے ہیں۔ سراج قاسم کے جانے کے بعد بی ایم جی اور کراچی ایوانِ تجارت و صنعت کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں