ٹیکنالوجی کمپنیوں نے سوشل میڈیا قواعد میں اہم تبدیلیوں کیلئے وزیراعظم سے مدد مانگ لی
ڈینمارک: وزیراعظم پاکستان عمران خان کو لکھے گئے ایک خط میں ٹیکنالوجی کمپنیوں نے نو منظور شدہ سوشل میڈیا قواعد میں اہم تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے لیے ان سے مدد مانگ لی، جن کی وجہ سے ان سوشل میڈیا کمپنیوں کا پاکستان میں اپنی خدمات اور پلیٹ فارم جاری رکھنا 'سخت مشکل' ہوگیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'ریموول اینڈ بلاکنگ اَن لا فل آن لائن کانٹینٹ (پروسیجر، اوور سائٹ اینڈ سیف گارڈز) رولز 2020 ' پریوینشن آف الیکٹرونک کرائم 2016(پیکا) کے تحت سرکاری گزیٹ میں شائع ہوئے۔
ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) کے ڈان کو فراہم کردہ خط جسے 5 دسمبر کو تحریر کیا گیا تھا میں مشاورت کے معتبر عمل کا فوری مطالبہ کیا گیا ہے جس کے ذریعے اے آئی سی اراکین اہم اِن پٹ فراہم کرسکیں اور اہم مسائل مثلاً فرد کے اظہار اور پرائیویسی کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے گئے حقوق پر بات چیت کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد برقرار رکھنے پر ٹیکنالوجی کمپنیوں کا ملک چھوڑنے کا انتباہ
اے آئی سی کا کہنا تھا کہ اس کے اور اس کی رکن کمپنیوں کے ساتھ ہونے والی مشاورت میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے قواعد کا مسودہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وزارت انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی نے حال ہی میں ان قواعد کو بغیر کسی وضاحت اور ضروری طریقہ کار کے اپنی ویب سائٹ پر اپڈیٹ کردیا۔
خط میں کہا گیا کہ اس وجہ سے صنعتی اسٹیک ہولڈرز مشاورتی عمل میں اپنا بھروسہ کھو چکے ہیں کیوں کہ یہ نا تو معتبر اور نہ ہی شفاف تھا۔
ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں بشمول فیس بک اور گوگر نے اپنے مؤقف کو دہرایا تھا کہ ان قواعد کا بڑا حصہ عالمی انٹرنیٹ پلیٹ فارمز کے لیے نہ صرف کام کے قابل نہیں بلکہ پیکا کے دائرہ کار سے بھی متجاوز ہے جس سے اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھتے ہیں۔
ڈیٹا لوکلائزیشن، آزاد بیانیہ
خاص طور پر اے آئی سی نے کہا کہ قواعد میں ڈیٹا کو مقامی بنانے کی شرط سے پاکستانہ شہری ایک آزاد اور کھلے انٹرنیٹ تک رسائی سے محروم ہوجائیں گے اور دیگر دنیا کے مقابلے پاکستان کی ڈیجیٹل اکانومی بند ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد نافذ، اسٹیک ہولڈرز کی شدید مخالف
اس کے ساتھ اے آئی سی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ٹی اے کے اختیارات کو بے انتہا توسیع دے دی گئی ہے جس سے ریگولیٹر کو سوشل میڈیا کمپنیوں کو انسانی حقوق کی روایات اور آزادی اظہار رائے کی خلاف ورزی رکنے کی اجازت مل گئی ہے۔
مواد ہٹانے کی درخواستوں کے بارے میں سوشل میڈیا کمپنیوں نے کہا کہ جب درخواست گزار کی جانب سے تمام ضروری معلومات موصول ہوجائے تو انہیں ان کا جائزہ لینے کے لیے مناسب وقت درکار ہوگا۔
عملی دفتر
اے آئی سی کا مزید کہنا تھا کہ کمپنیوں کو اپنے دفاتر پاکستان میں کھولنے کے لیے مجبور کرنے کے بجائے مراعات کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کرنی جاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا قواعد: حکومت یا کوئی اور تنقید سے بالاتر نہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ
خط میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا جس مؤثر انداز میں ان لائن کانٹینٹ کی چھان پھٹک کرتی ہیں اس کا انحصار مقامی سطح پر انکی موجودگی سے نہیں ہے بلکہ بہتر طریقہ کار، پروڈکٹ کی مخصوص پالیسیوں، مقامی واضح قوانین اور مواد ہٹانے کی درست معلومات پر مبنی درخواستوں پر ہے۔
اے آئی سی نے حکومت پر زور دیا کہ صنعت کے ساتھ عملی اور واضح قواعد پر کام کیا جائے جو انٹرنیٹ فوائد کا تحفظ کرسکیں اور پاکستان میں لوگوں کو نقصان سے بچا سکیں۔