• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

ڈینیئل پرل قتل کیس: مقتول کی اہلیہ کا تفتیش میں شامل نہ ہونا بدقسمتی ہے، سپریم کورٹ

شائع December 9, 2020
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈینیئل پرل قتل کیس پر سماعت کی — ڈان آرکائیوز
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈینیئل پرل قتل کیس پر سماعت کی — ڈان آرکائیوز

سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا ہے کہ مقتول کی اہلیہ کا تفتیش میں شامل نہ ہونا بدقسمتی ہے جبکہ ڈینیئل پرل کو ورغلایا گیا یا وہ خود گیا یہ ثابت نہیں ہو سکا۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ڈینیئل پرل قتل کیس پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ کیا تاوان کے لیے بھیجی گئی ای میل کی تصدیق کی گئی، کیا جیو فینسنگ ہوئی۔

فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ای میل کی تصدیق نہیں ہوسکی جبکہ 2002 میں جیو فنسنگ کی ٹیکنالوجی موجود نہیں تھی۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ فون کو تو ٹریس کیا جاسکتا تھا، جب ای میل کی تصدیق نہیں ہوئی تو کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ای میل اغوا کاروں نے بھیجی، مقتول کی اہلیہ کا تفتیش میں شامل نہ ہونا بدقسمتی ہے، تفتیش کار ڈینیئل پرل کی اہلیہ کو بلاتے اور ای میل کی تصدیق کراتے۔

حکومت سندھ کے وکیل نے کہا کہ یہ بہت بڑا کیس تھا اور ایف بی آئی کے اہلکار تفتیش کے عمل میں شریک ہوئے، یہ ثابت ہے کہ ڈینیئل پرل کو ورغلا کر اغوا کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: تیسرے گواہ کا بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست منظور

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ڈینیئل پرل کو ورغلایا گیا یا وہ خود گیا یہ ثابت نہیں ہو سکا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی، کل بھی سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک دلائل جاری رکھیں گے۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

خیال رہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کو جنوری 2002 میں کراچی میں اس وقت اغوا کر کے قتل کردیا گیا تھا جب وہ مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے ایک مضمون پر کام کر رہے تھے۔

جس پر انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی ڈینیئل پرل قتل کیس کے فیصلے پر تنقید

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور رواں سال مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلیں تھیں جبکہ مرکزی ملزم عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

بینچ نے اپنے فیصلے میں 3 ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ مجرم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں

واضح رہے کہ ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے 3 ملزمان کی بریت اور مرکزی ملزم کی سزا میں تخفیف کے فیصلے کے خلاف مقتول صحافی کے اہلِ خانہ اور حکومت سندھ نے سپریم کورٹ میں علیحدہ علیحدہ درخواست دائر کی تھی۔

سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈینئیل پرل کے قاتلوں کو رہا کروانے کا منصوبہ ناکام

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پراسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024