• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

وزارت دفاع کو سینئر عسکری افسران کی آمدنی، اثاثوں کی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت

شائع December 9, 2020
ڈبلیو اے ایف نے تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت افسران سے متعلق معلومات مانگی تھی—تصاویر: آئی ایس پی آر ویب سائٹ
ڈبلیو اے ایف نے تینوں مسلح افواج کے سربراہان سمیت افسران سے متعلق معلومات مانگی تھی—تصاویر: آئی ایس پی آر ویب سائٹ

اسلام آباد: ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) نے وزارت دفاع کو آگاہ کیا ہے کہ مسلح فورسز کے افسران کی آمدنی، انکم ٹیکس، اثاثوں، مراعات، ریٹائرمنٹ کے بعد کے فوائد اور الاٹ کیے جانے والے پلاٹس سے متعلق معلومات حساس نہیں بلکہ عوامی معلومات ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیشن کی جانب سے وومن ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) کے ایکٹوسٹ اور کچھ متعلقہ شہریوں کی جانب سے دائر کی گئی 34 اپیلوں پر فیصلہ کرتے ہوئے وزرات دفاع کو یہ گائڈلائنز جاری کی گئیں۔

ان اپیلوں میں وزارت دفاع سے مذکورہ بالا معلومات طلب کی گئی تھیں تاہم اس حوالے سے اعداد و شمار فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: کیا آپ جانتے ہیں معلومات تک رسائی آپ کا حق ہے؟

وزارت دفاع کو معلومات کے لیے جنہوں نے درخواستیں بھیجی تھیں ان میں انیس ہارون، ہلدہ سعید، نگہت سعید خان، ڈاکٹر عبدالحمید نیر، نائیلہ ناز، عظمیٰ نورانی، میمونہ رؤف خان، نسرین اظہر، نسرین ایل صدیقی، ربینہ سیگل، ماریا راشد، کوثر ایس خان، نازش بروہی اور فرحت اللہ بابر شامل ہیں۔

ان درخواست گزاروں نے انفارمیشن کمشنر کے دفتر میں مذکورہ معلومات کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کروائی تھیں۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن نے وزارت دفاع کو بتایا کہ یہ نامزد ’پبلک انفارمیشن آفیسر‘ کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی جانب سے معلومات تک رسائی کے قوانین 2019 کے رول 3 کے تحت دائر کی گئی درخواستوں پر جواب دے۔

انفارمیشن کمیشن کے دفتر کی جانب سے وزارت دفاع کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ درخواست گزاروں کی جانب سے مانگی گئی معلومات 10 کام کے دنوں میں فراہم کرے، ساتھ ہی خبردار کیا کہ عدم تعمیل کی صورت میں متعلقہ افسر پر جرمانہ کیا جائے گا۔

پی آئی سی کے فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کسی ایسے افسر جس کی معاونت نامزد افسر کو درکار تھی اس کی طرف سے عدم تعاون یا تاخیری ردعمل کے نتیجے میں تاخیر ہوتی ہے یا کوئی اور شکایت آتی ہے تو معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت جرمانہ نافذ کرنے کے مقصد کے لیے متعلقہ سیکریٹری کی منظوری کے بعد اس افسر کو نامزد افسر تصور کیا جائے گا۔

دوسری جانب ڈبلیو اے ایف نے پی آئی سی کے فیصلے کا خیرمقدم کرتےہوئے کہا ہے کہ وزارت دفاع کو بھیجی گئی پہلی درخواستوں میں فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرلز، میجر جنرلز اور بریگیڈیئرز، ایئرفورس کے ایئرچیف مارشل، ایئر مارشلز، ایئر وائس مارشلز اور کموڈورز اور نیوی کے ایڈمرل، وائس ایڈمرل، ریئر ایڈمرل اور کموڈورز سے متعلق معلومات مانگی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’معلومات تک رسائی‘ کا قانون بے سہارا لوگوں کی آخری اُمید؟

بیان میں کہا گیا کہ ’جب وزارت دفاع سے کوئی (مثبت) جواب نہیں آیا تو درخواست گزاروں نے پی آئی سی سے رجوع کیا‘۔

ڈبلیو اے ایف کے مطابق وزارت دفاع نے جواب دیا تھا کہ جو معلومات مانگی گئیں تھیں وہ ایکٹ کے سیکشن 7 (ای) کے تحت عوامی ریکارڈ سے نکال دی گئی تھیں، جو ’دفاعی فورسز، دفاعی تنصیبات اور دفاع او قومی سلامتی سے متعلق ریکارڈ‘ کو عام کرنے سے استثنیٰ دیتا ہے۔

تاہم ڈبلیو اے ایف کا کہنا تھا کہ عوام کے مفادات آئین کی حفاظت اور تمام شہریوں کے بنیادی اور مساوی حقوق اور ریاستی اختیارات کو تقسیم کرنے میں ہیں۔


یہ خبر 09 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024