اپوزیشن اگر استعفے دے گی تو خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرادوں گا، وزیر اعظم
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر اپوزیشن پارلیمنٹ سے استعفے دیتی ہے تو تو حکومت خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرا دے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ جب بھی حکومت اپوزیشن کے ساتھ بات کرتی ہے سب کچھ ان کے مقدمات پر آجاتا ہے، ’میں چاہتا ہوں کہ انہیں این آر او دیے بغیر ہر چیز پر بات ان سے بات کروں‘۔
واضح رہے کہ ان کا یہ بیان اس روز سامنے آیا جب اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومںٹ (پی ڈی ایم) نے وفاقی دارالحکومت میں ایک اجلاس بلایا تھا تاکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے۔
اپوزیشن اتحاد کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہوں اور صاف اور شفاف انتخابات منعقد کروائے جائیں۔
مزید پڑھیں: 31 دسمبر تک ارکان اسمبلی پارٹی قائدین کے پاس استعفے جمع کرا دیں، مولانا فضل الرحمٰن
تاہم اس حوالے سے وزیراعظم مطمئن دکھائے دیے اور انہوں نے اس بات کو دوہرایا کہ جلسے منعقد کرکے اپوزیشن افراتفری پھیلا کر حکومت کو غیرمستحکم کرنا چاہتی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے یہ ایک اہم لمحہ ہے کیونکہ یہ قانون کی حکمرانی کی جدوجہد ہے‘، مزید یہ کہ 5 سال کی مدت کے اختتام تک ان کی حکومت اور سابق حکومتوں کے درمیان فرد تمام شہریوں کو واضح ہوجائے گا۔
اس موقع پر جب ایک صحافی نے پوچھا کہ گزشتہ کچھ ہفتوں سے اپوزیشن کیوں اتنا پراعتماد نظر آرہی ہے تو وزیراعظم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ان کی اعتماد کی سطح میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہ ’یہ لوگ صرف آئینی راستے سے مجھے ہٹا سکتے ہیں‘۔
تاہم انہوں نے کہا کہ وہ کچھ ممالک کے بارے میں جانتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے اپوزیشن پراعتماد ہے۔
دوران گفتگو وزیراعظم نے کہا کہ مسلمان ممالک کو کمزور بنایا گیا اور اس کے پیچھے ایک منصوبہ تھا، انہوں نے اس حوالے سے عراق، ایران اور شام کا حوالہ دیا اور کہا کہ اسی طرح یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان مضبوط نہ ہو۔
عمران خان نے زور دیا کہ اب سول-ملٹری تعلقات بہت اچھے ہیں کیونکہ فوج ان کی کسی بھی پالیسی میں رکاوٹ نہیں بنی جو پی ٹی آئی کے منشور میں بیان کی گئی تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی مدد کی گئی اور ان کی جانب سے پیش کی گئی کی بھی پالیسی میں فوج کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔
انہوں نے افغانستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جب ان کی حکومت اقتدار میں آئی تو اس کی افغانستان پر کوئی انسٹی ٹیوشنل میموری نہیں تھی اور فوج نے ان کی پالیسی میں مدد کی۔
ساتھ ہی انہوں نے بھی کہا کہ خفیہ ایجنسیز رہنماؤں کی حفاظت کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ لیڈر کیا کررہا ہے لہٰذا انہیں یہ بھی مکمل معلوم تھا کہ کہ سابق رہنماؤں نے کیا کیا۔
دوران گفتگو جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری سے متعلق نوٹیکفیشن کو کالعدم قرار دینے اور یہ حکم دینے کہ غیرمنتخب مشیروں اور معاونین خصوصی کے حکومتی کمیٹی کی سربراہی نہیں کرسکتے کے فیصلے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت عدالتی احکامات پر عمل کرے گی۔
تاہم انہوں نے اعتراض کیا کہ ضروری نہیں منتخب فرد کو تکنیکی مہارت حاصل ہو۔
انہوں نے کہا کہ توانائی، پیٹرولیم، آئی ٹی، سیاحت، زراعت وغیرہ جیسی وزارتوں کو چلانے کےلیے معاونین کی ضرورت تھی، اسی طرح سول سروسز میں بھی اصلاحات کی ضرورت تھی چونکہ ماہرین اور سبجیکٹ ایکسپرٹس کی وہاں بھی ضرورت تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارا نظام صحت کورونا وبا کے پھیلاؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا، وزیراعظم
ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ ’ہم ایسے ماہرین کے بغیر کیسے جدید حکمرانی کرسکتے ہیں‘۔
تاہم ان کی حکومت کی گورننس پر عدالتی حکم کے اثرات اور اس طرح کے غیرمنتخب ماہرین پر انحصار سے متعلق انہوں نے کہا کہ ہم کوئی حل تلاش کرلیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی گفتگو میں یہ بھی بتایا کہ ان کی حکومت بلدیاتی انتخابات کے لیے تقریباً تیار ہے اور یہ سینیٹ انتخابات کے بعد اپریل 2021 میں ممکنہ طور پر ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ وہ اب طویل مدتی منصوبہ بندی اور پی آئی اے، اسٹیل ملز اور شعبہ توانائی جیسے اداروں کی اصلاحات پر توجہ دے رہے ہیں، ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اصلاحات مشکل عمل تھا کیونکہ نظام میں جمہود تھا تاہم ’مجھے کبھی شک نہیں تھا کہ مجھے جدوجہد کرنا پڑے گی‘۔
اپنی ترجیحات کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے وزیراعظم نے 4 بڑے منصوبے کا ذکر کیا جس میں 2 بڑے ڈیم منصوبے، لاہور میں راوی سٹی اور کراچی کی ساحلی پٹی پر جزیرہ بنڈل مںصوبہ شامل ہے۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کی دوسری لہر اور شہریوں کی جانب سے ایس او پیز پر عمل نہ کرنے سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا۔