• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان میں کورونا ویکسین سے متعلق سازشی رجحان سے نجات کی ضرورت

شائع December 9, 2020
پاکستان میں چینی کمپنی کی مدد سے ویکسین آخری مرحلے میں ہے—فوٹؤ:رائٹرز
پاکستان میں چینی کمپنی کی مدد سے ویکسین آخری مرحلے میں ہے—فوٹؤ:رائٹرز

پاکستان میں وسیع پیمانے پر آزمائش کے لیے چین کی تیار کردہ کووڈ-19 ویکسین بھی مخالف رویے کے باعث سازش اور مفروضوں کا شکار ہوسکتی ہے اور اس حوالے سے ڈاکٹر محسن علی نے فکرمند رضاکاروں سے ہر قسم کے سوالات سن چکے ہیں۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق ڈاکٹر محسن علی نے ان سے پوچھے گئے لوگوں کے سوالات دہرائے 'کیا یہ میری تولیدی صلاحیت کو ختم کردے گی، کیا یہ میری جان لے گی، اس میں فائیو جی کی کوئی چپ ہے اور کیا یہ لوگوں کو قابو کرنے کی کوئی سازش ہے'۔

مزید پڑھیں: حکومت کورونا ویکسینز کیلئے چین، روس سے بات کر رہی ہے، ڈاکٹر فیصل سلطان

اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے اس طرح کے کئی سوالات ہوئے اورمیں نے ان کے منطقی جواب دینے کی کوشش کی اور ذاتی طور پر سمجھانے کی کوشش کی'۔

خیال رہے کہ شفا انٹرنیشنل ہسپتال پاکستان کے ان ہسپتالوں میں سے ایک ہے جہاں چین کی کمپنی کینسو بائیلوجکس کی مدد سےتیار کردہ ویکیسن کے تیسرے مرحلے کی آزمائش کی جارہی ہے۔

حکومت نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ ویکسین کے حصول کا عمل شروع کیا جاچکا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ویکسین کینسینو یا کسی اور کمپنی سے حاصل کی جائے گی۔

دوسری جانب گیلپ پاکستان کی جانب سے گزشتہ ماہ ایک سروے کیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ 37 فیصد پاکستانی ویکسین دستیاب ہونے کے بعد اس کو استعمال نہیں کریں گے۔

کیلپ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال گیلانی کا کہنا تھا کہ 'ویکسین کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے یہ تشویش ناک اعداد وشمار ہیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے کیونکہ اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کا انحصار ویکسین پر ہے'۔

گوکہ ویکسین مخالف رویہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں کسی اور جگہ کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا ویکسین کی فراہمی 2021 کی پہلی سہ ماہی تک ہوسکتی ہے، ڈاکٹر فیصل سلطان

پاکستان میں پولیو کی ویکسین پلانے والے رضاکاروں پر کئی حملے ہوچکے ہیں اور قتل کیا گیا ہے، اسی رویے کے باعث ہمسائیہ ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان دوسرا ملک ہے جہاں پولیو کا مرض تاحال پایا جاتا ہے۔

ملک میں لاکھوں بچوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر سال متعدد مرتبہ پولیو ویکسین کی مہم چلائی جاتی ہے لیکن کئی علاقوں میں بچوں کے والدین قطرے پلانے سے انکار کیا جاتا ہے کیونکہ وہ ویکسین سےمتعلق پائے جانے والے مفروضوں پر یقین رکھتے ہیں۔

عدم اعتماد

پولیو جہاں کئی دہائیوں سے خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے وہی اب کووڈ-19 نئی بیماری ہے اور حکام فوری طورپر اس تاثر کوزائلکرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان میں ویکسین سے متعلق تحقیق کرنے والے سعودی عرب کے شہر سکاکا میں قائم میں الجاف یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر توقیر حسین کا کہنا تھا کہ 'کئی لوگ تا تاحال اس کو حقیقی بیماری نہیں سمجھتے'۔

یاد رہے کہ ملک گیر نافذ کیا گیا لاک ڈاؤن پاکستان کے 20 کروڑ 70 لاکھ سے زائد شہریوں کے معاشی طور پر کمزور ہونے کے خطرے کے پیش نظر چند ہفتوں کے اندر ختم کردیا گیا تھا۔

پاکستان میں سماجی فاصلہ رکھنے کی شرط کی بدستور خلاف ورزی ہو رہی ہے کیونکہ عوام کی بڑی تعداد مارکیٹوں اور مساجد میں جمع ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی مسلسل دوسرے روز بھی کورونا کیسز کی مثبت شرح میں سب سے آگے

ملک میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 4 لاکھ 23 ہزار 179 ہے جس میں سے 3 لاکھ 70 ہزار 474 صحتیاب ہوئے ہیں جبکہ اموات کی تعداد 8 ہزار 487 تک پہنچ گئی ہے۔

کورونا وائرس کے اعداد و شمار سے متعلق سرکاری پورٹل کے مطابق ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 33 ہزار 610 ٹیسٹ کیے گئے جس میں سے 2 ہزار 885 میں وائرس کی تشخیص ہوئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مزید 89 افراد زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ 13 ہزار 932 افراد ایسے تھے جو شفایاب ہوئے، جس کے بعد مجموعی طور پر فعال کیسز 44 ہزار 218 ہوگئے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ کووڈ-19 سے متعلق کئی سازشیں رجحان مغربی ممالک سے آئے ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اسکالرز کی ایک بڑی تعداد کہہ چکی ہے کہ ویکسین اور دیگر علاج ضروری ہے لیکن پولیو کی طرح انتہاپسندی بھی موجود ہے'۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ 'پاکستان میں پائے جانے والے مغربی فوبیا کو دیکھتے ہوئے امریکا یا برطانیہ کے بجائے روس یا چین سے ویکسین حاصل کی جاسکتی ہے'۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024