نظرثانی کیس: اہلیہ جسٹس عیسیٰ کی چیف جسٹس سے متعلق بات پر عدالت برہم، حد میں رہنے کی تنبیہ
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے چیف جسٹس کو فریق کہنے پر بینچ کے سربراہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔
ساتھ ہی سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نظرثانی کیس سننے والے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض پر مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی محمد امین پر مشتمل 6 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر دیے گئے عدالتی فیصلے کے خلاف جسٹس عیسیٰ، ان کی اہلیہ و دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔
مزید پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ نے وزیراعظم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا
اس موقع پر عدالت عظمیٰ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک، اہلیہ جسٹس عیسیٰ سرینا عیسیٰ و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔
6 ججز 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتے، جسٹس عمر
دوران سماعت سرینا عیسیٰ نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ رول 26 اے کے مطابق صرف وہی بینچ نظر ثانی درخواستیں سن سکتا ہے جس نے پہلے سماعت کی ہو، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ سپریم کورٹ اپنے رولز پر عمل کیوں نہیں کر رہی، سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 6 رکنی بینچ تشکیل دے کر غلطی کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 6 رکنی بینچ کیسے 7 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست سن سکتا ہے، ساتھ ہی انہوں نے سوال اٹھایا کہ 7 رکنی اکثریتی فیصلے کو 6 رکنی بینچ کیسے کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 3 ججز کو بینچ سے نکالا گیا اور میرے حقوق متاثر کیے گئے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھے اختلافی نوٹ دینے والے ججز کے فیصلے سے بھی اختلاف ہیں، میری عدالت سے استدعا ہے کہ نظرثانی درخواست سننے کے لیے اختلافی نوٹ والے ججز کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔
ساتھ ہی انہوں نے بینچ کے تمام ججز سے باری باری ایک ہی سوال کیا کہ کیا 6 ججز بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے سکتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ میں مانتا ہوں 6 رکنی بینچ 7 رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 6 ججز بینچ کی تشکیل سے متعلق فیصلہ دے سکتے ہیں، آپ نے جس انداز میں سوالات اٹھائے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔
بینچ تشکیل کے خلاف درخواست سن رہے ہیں، عدالت
ان کے ریمارکس پر سرینا عیسیٰ نے جواب دیا کہ میرے مقدمے کی سماعت کے لیے 10 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کے نکات رجسٹرڈ کر لیے ہیں، آپ حقائق کو نظر انداز کر رہی ہیں، ہم نظر ثانی اپیل نہیں سن رہے بلکہ ہم بینچ کی تشکیل کے خلاف درخواست سن رہے ہیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران سرینا عیسیٰ نے مذکورہ معاملے کی مرکزی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں اس کیس میں فریق نہیں تھی لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے فریق نہ ہونے کے باوجود 81 مرتبہ میرا نام لیا۔
یہ بھی پڑھیں: نظرِ ثانی کی ترمیم شدہ درخواستوں میں جسٹس عیسیٰ کیس کے فیصلے پر سوالات
اس موقع پر سرینا عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد، قاضی فائز عیسی کے بینچ کا حصہ رہ چکے ہیں، چیف جسٹس بطور چیئرمین جوڈیشل کونسل ہماری قسمت کا فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی جانب سے کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان اس کیس میں فریق ہیں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگا رہی ہیں، آپ حد پار کر رہی ہیں، اپنی حد سے باہر نہ جائیں۔
بینچ بنانا چیف جسٹس کا آئینی اختیار ہے، عدالت
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری فیملی کا حصہ ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان پر الزام لگایا جائے، آپ ادارے اور اس کے سربراہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے محتاط رہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس بینچ بنا سکتا ہے یہ ان کا آئینی اختیار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کے بعد سرینا عیسیٰ نے عدالت سے معافی مانگ لی۔
سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میرا مقصد کسی جج کی دل آزاری نہیں تھا، اگر کسی جج کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معذرت چاہتی ہوں۔
بعد ازاں کیس کی سماعت میں جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ہمارے لیے محترم ہیں لیکن سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے بارے میں بات کرتے ہوئے احتیاط برتیں۔
ساتھ ہی جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ آپ کی تمام باتیں سن لی ہیں۔
دوران سماعت سرینا عیسیٰ نے مؤقف اپنایا کہ شہزاد اکبر اور فروغ نسیم نے غیر قانونی طریقہ اپنایا، اس پر جسٹس عمر نے ریمارکس دیے کہ آپ کیس کے میرٹس پر نہ جائیں ہم نظر ثانی درخواستیں سنیں گے۔
جس کے بعد سرینا عیسیٰ روسٹرم سے ہٹ گئیں، بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے عدالت میں دلائل دیے۔
احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں، جسٹس عمر عطا
سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کا تاثر عوام میں رکھنا بار کا کام ہے، جج خود عوام میں نہیں جاسکتے۔
مزید پڑھیں: ایس جے سی کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی گئی، جسٹس عیسیٰ
انہوں نے کہا کہ احتساب کے بغیر عدلیہ کی آزادی ممکن نہیں، ہم نے اپنے فیصلے میں توازن رکھا، ایک طرف جج پر لگائے اعتراضات ختم کرکے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا، دوسری طرف احتساب کے عمل کو تحفظ دیا۔
اس موقع پر سندھ بار کونسل کے وکیل رشید اے رضوی نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ اگر 9 جج نظرثانی کیس سنے تو اس سے نقصان کیا ہے، یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ انصاف نہیں ہوا۔
جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایک سینئر وکیل کے منہ سے عدالت پر عدم اعتماد قابل افسوس ہے، ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پہلے 2 ججز پر اعتراض اٹھایا گیا، آج پھر اعتراضات اٹھائے گئے۔
بینچ کی تشکیل کا معاملہ آئین و قانون کے مطابق طے کریں گے، عدالت
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ مستقبل کے ممکنات پر ججوں پر اعتراض اٹھانا نامناسب تھا، ہم نے اعتراض مسترد کیا لیکن جج خود بینچ سے الگ ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بینچ کی تشکیل کا معاملہ آئین و قانون کے مطابق طے کریں گے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ نظرثانی کیس سننے والے بینچ پر اٹھائے گئے اعتراض پر مشاورت کے بعد فیصلہ دیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی، ساتھ ہی عدالت نے صدر سپریم بار ایسوسی ایشن لطیف آفریدی کی طرف سے مہلت دینے کی استدعا منظور کر لی۔
معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ 19 جون کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے 10 رکنی بینچ میں سے انہیں7 اراکین نے مختصر حکم نامے میں پیرا گراف 3 سے 11 کے ذریعے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سامنے دائر ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ان کے اہل خانہ سے ان کی جائیدادوں سے متعلق وضاحت طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے معاملے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرانے کا کہا تھا۔
تاہم عدالت عظمیٰ کے اس مختصر فیصلے کے پیراگرافس 3 سے 11 کو دوبارہ دیکھنے کے لیے 8 نظرثانی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔
یہ درخواستیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ان کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، کوئٹہ بار ایسوسی ایشن کے صدر، پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین، ایڈووکیٹ عابد حسن منٹو اور پاکستان بار کونسل نے دائر کی تھیں۔
اپنی نظرثانی درخواستوں میں درخواست گزاروں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 19 جون کے مختصر فیصلے میں پیراگرافس 3 سے 11 کی ہدایات/ آبزرویشنز یا مواد غیر ضروری، ضرورت سے زیادہ، متضاد اور غیرقانونی ہے اور یہ حذف کرنے کے قابل ہے چونکہ اس سے ریکارڈ میں ’غلطی‘ اور ’ایرر‘ ہوا ہے لہٰذا اس پر نظرثانی کی جائے اور اسے حذف کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ
بعد ازاں اس کیس کا 23 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا تھا جو 174 صفحات پر مشتمل تھا، جس میں سپرم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 209 (5) کے تحت صدر مملکت عارف علوی غور شدہ رائے نہیں بنا پائے لہٰذا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’مختلف نقائص‘ موجود تھے۔
تفصیلی فیصلے کے بعد اکتوبر میں سپریم کورٹ کو 4 ترمیم شدہ درخواستیں موصول ہوئی تھی جن میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق اکثریتی فیصلے پر سوال اٹھائے گئے تھے۔
10 نومبر کو سرینا عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کے ساتھ درخواست جمع کروانے کے لیے پیش ہوئی تھی اور انہوں نے درخواست کی تھی کہ ان تمام ججز کو 10 رکنی فل کورٹ میں شامل کیا جائے جنہوں نے صدارتی ریفرنس کے خلاف ان کے شوہر (جسٹس عیسیٰ) کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا اور 19 جون کا مختصر حکم جاری کیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ دسمبر کے اوائل میں سرینا عیسیٰ نے عدالت میں ایک درخواست جمع کروائی تھی جس میں انہوں نے پہلے والی نظرثانی درخواست کو منظور کرنے کیا استدعا سمیت زور دیا تھا کہ جسٹس عیسیٰ کیس میں 7 ججز کے 19 جون کے مختصر حکم سمیت 23 اکتوبر کے تفصیلی فیصلے کو بھی کالعدم قرار دیا جائے۔
علاوہ ازیں 5 دسمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اضافی درخواست داخل کی تھی اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے تعصب سے متعلق میری درخواست پر سماعت ہی نہیں کی۔
ساتھ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نظر ثانی درخواست میں استدعا کی تھی کہ سماعت ٹی وی پر براہ راست نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔