سندھ ہائی کورٹ: 2 افراد کے قتل کا الزام، 5 پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے سرجانی ٹاؤن میں مبینہ پولیس مقابلے میں دو افراد کے قتل کرنے والے 5 پولیس اہلکاروں کے خلاف سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس نظر اکبر کی سربراہی میں دو ججز پر مشتمل بینچ نے ایس ایس پی (غربی) کو فوری طور پر پولیس اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے اور 3 روز میں تعمیلی رپورٹ پیش کرنے کو کہا۔
بینچ نے پولیس انکاؤنٹر اور ناجائز اسلحہ کیسز میں ٹرائل کورٹ کے ذریعے اپیل کنندہ محمد جاوید کی سزا کو ختم کرتے ہوئے مشاہدہ کیا کہ استغاثہ کے معاملات قابل اعتبار نہیں ہیں اور اس کی کہانی میں متعدد خامیاں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں: لاہور: اداکارہ کا ریپ کرنے کے الزام میں پولیس اہلکار گرفتار
استغاثہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس پارٹی اے ایس آئی عمران رشید کی سربراہی میں اپریل 2019 میں کنیز فاطمہ سوسائٹی، سرجانی ٹاؤن میں گشت پر تھی جب انہیں ڈکیتی کی اطلاع ملی اور وہ وہاں پہنچ گئے۔
ملزمان نے مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی جنہوں نے جوابی فائرنگ کی جس سے غلام شبیر اور غلام رسول ہلاک ہوگئے اور جاوید کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا جبکہ ان کا چوتھا ساتھی یوسف عرف مرتضی فرار ہوگیا۔
پولیس نے اس کے مبینہ ساتھیوں کے ساتھ دو مقدمات میں اپیل کنندہ کا مقدمہ درج کیا اور انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے رواں سال جنوری میں اسے 16 سال کی مجموعی سزا سنائی تھی۔
ملزم نے اے ٹی سی کے حکم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور اپیلٹ ڈویژن بینچ میں اپیل دائر کی تھی، پورے ریکارڈ سے گزرنے اور دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپیل منظور کرلی گئی اور جیل حکام کو ہدایت کی کہ اگر اپیل کنندہ کسی بھی دیگر فوجداری مقدمات میں مطلوب نہیں ہے تو اسے رہا کرے۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ یہ واضح طور پر سامنے آیا ہے کہ پولیس اہلکار اے ایس آئی رشید، کانسٹیبل محمد عارف، سجاد حسین، فہد علی اور وقار حسین نے ایک انکاؤنٹر کے نام پر غلام شبیر اور غلام رسول کو بے دردی سے قتل کیا تھا۔
بینچ نے استغاثہ کی کہانی میں بہت ساری خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اپنے شواہد میں پولیس عہدیداروں نے کہا تھا کہ انہوں نے مبینہ مقابلے کے دوران انتقامی کارروائی میں سب مشین گن (ایس ایم جی) کا استعمال کیا تھا لیکن جرائم کی جگہ سے صرف تین ایس ایم جی کے خالی خول ملے اور بتایا گیا کہ مشتبہ افراد نے پستول کی گولیوں کے بوچھاڑ کیے تاہم کوئی پولیس اہلکار یا راہگیر زخمی نہیں ہوا اور یہاں تک کہ کوئی گولی پولیس وین کو بھی نہیں لگی۔
بینچ کا کہنا تھا کہ 30 بور پستول کے تین خول میں سے ایک بھی مقتول اور اپیل کنندہ کے پستول سے مماثل نہیں ہوئے جس کا دعویٰ کیا گیا تھا وہ مقتول اور اپیل کنندہ کے قبضے سے لیے گئے تھے۔
بتایا گیا کہ میڈیکل لیگل آفیسر کے بیان سے ظاہر ہوا ہے کہ ہلاک ہونے والے افراد کو ایک تیز رفتار ہتھیار سے ایک ہی گولی سر پر لگی جو تقریباً دو فٹ کے فاصلے سے ماری گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس افسر کے قتل کے الزام میں گرفتار 5 ملزمان بری
بینچ نے کہا کہ ڈکیتی اور انکاؤنٹر کا الزام جو کم از کم اس معاملے میں ریکارڈ پر آیا ہے وہ ثابت نہیں ہوسکا کیوں کہ قبضے اور گرفتاری کے میمو میں پستول کا خول نہیں دکھایا گیا اور نام نہاد ڈکیتی کو موقع پر سیل کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ موقع پر ہی جائے وقوع ضبط کرنے میں ناکامی صرف اس بات کا یقین دلاسکتی ہے کہ متوفی افراد اور اپیل کنندہ سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی۔
ڈکیتی کی کہانی واضح طور پر سوچی گئی تھی یہی وجہ ہے کہ ڈکیتی کے مقدمے کی سماعت ٹرائل کورٹ نے نہیں کی تھی اور نہ ہی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 21 – ایم (مشترکہ مقدمے کی سماعت) کے تحت کوئی درخواست درج کی گئی تھی تاکہ افسر یا ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل یہ ظاہر کرسکیں کہ یہ کیس ابھی بھی اے ٹی سی کے سامنے زیر التوا ہے۔
پولیس نے اپیل کنندہ کے خلاف دو مقدمات، دو مقتول اور ایک مفرور کے خلاف دفعہ 324 (اقدام قتل)، 353 (سرکاری ملازم کو اپنے فرائض سے روکنے کے لیے فوجداری حملہ) یا پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ منشا)، اے ٹی اے کے سیکشن 7 سندھ آرمس ایکٹ 2013 کی دفعہ 23 (اے) (1) کے تحت سرجانی ٹاؤن تھانے میں مقدمات درج کیے تھے۔